• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان ظلم پر متحد، عدل پر منتشر کیوں؟

ظلم کی تعریف یہ کی گئی ہے کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر غلط جگہ رکھ دیا جائے، اور اسی تعریف کے مطابق آج پوری انسانیت ظلم پر متحد اور عدل پر منتشر ہے، ظلم کی یہ تعریف ہم نے نہیں بڑے بڑے فلاسفرز نے کی ہے، آج پوری دنیا میں کوئی آدمی کوئی انسان ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں عدل و انصاف کے حق میں گونگا ہے، کورونا یہی چاہتا ہے کہ اس کی گویائی بحال ہو جائے، ہم یعنی جو مقتدر انسان ہیں ہنوز ظلم سے رک رہے ہیں اور نہ اسے روک رہے ہیں۔ ہم نام لیکر خود کو بدنام نہیں کرنا چاہتے کیوں ہم بھی قبیلہ مظلوماں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے حکمران دوسرے قبیلے سے، بہرحال حسب توفیق ظلم تو مظلوم بھی کر لیتا ہے ،کیونکہ خالی ہاتھ تو وہ بھی نہیں، اپنے سے کمزور اور ضرورت مند سے زیادتی کر جاتا ہے، کورونا نے جیسے اوزون کو ٹھیک کر دیا موسموں کو بھی ان کی جگہ پر لے آیا، اس وبا بارے کچھ کہا تو نہیں جا سکتا البتہ اب ٹانوے ٹانویں کچھ انسان باقی رہ گئے ہیں جن کی تمنائے امید ہے کہ؎

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ

کوئی دن اور بھی جیے ہوتے

سنا ہے نیا کورونا اعصاب شکن ہو گا، عوام کے اعصاب تو 70برس پرانے ’’کورونا‘‘ نے پہلے توڑ دیے، اب ان کے پاس صرف کورونا بچا ہے جس سے کون بچے گا کوئی نہیں جانتا یہ ویکسین بنانے میں مصروف سائنسدان ہی بتا سکتے ہیں کیونکہ وہ تاحال وہیں تک پہنچے ہیں جہاں روز اول پہنچے تھے، ہمارا ایک ہی سوال ہے کہ کیا ظالموں نے ظلم چھوڑ دیا ہے؟ کیا انہوں نے سابقہ مظالم پر معافی مانگی ہے، کیا کسی نے مودی سے پوچھا ہے کہ کیوں بے گناہ بے خطا 80لاکھ کشمیریوں کو پنجرے میں بند کرکے مار رہا ہے؟

٭٭ ٭ ٭ ٭

بجٹ کورونا میں چھپ گیا

یوں تو بجٹ کو خسارے کی بادشاہی مبارک مگر ہم تنخواہ دار طبقے اور بزرگ پنشنروں کو کس چیز کی مبارکباد پیش کریں بجٹ کے پیش کار کو اپوزیشن سے خاصی رعایت مل گئی کیونکہ کورونا نے فاصلے پیدا کر دیے، بہرحال پی پی نے نون لیگ سے بڑھ کر ہلا گلا کیا، ان دنوں ن لیگ نے مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی ہے، جیسے حکومت نے کورونا کی قبا پہن لی ہے ایسا بجٹ ہے کہ اس پر رونا آتا ہے نہ ہنسنا، بس صرف کورونا آتا ہے جاتا نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ وہ تنخواہوں اور پنشنزمیں اضافہ نہ کرنے کو مسترد کرتے ہیں، ہم جو بجٹ پیش کریں گے وہ عوام دوست ہو گا، خان صاحب لاہور آئے ہوئے ہیں ان سے پوچھیں گے تو سہی کہ کیا وفاقی بجٹ عوام دشمن ہے؟ بہرصورت وزیراعلیٰ ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے یہ سرخی مرصع مصرع ہے کہ تاریخی خسارے کا ٹیکس فری بجٹ اشیائے تعیش مہنگی۔ مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کا یہ قول کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش جاری رکھیں گے یہ اب تک فقط قول ہے، فعل نہیں۔ گویا بارات کو دلہن نہیں دی گئی، انہوں نے یہ بھی فرمایا اگر معیشت چل پڑی تو ٹیکس وصولی کا ہدف پورا ہو جائے گا، ایک تو یہ ’’اگر ‘‘ ہمارے ہاں ’’مگر‘‘ ہے، نجانے کب اس معاشی کورونا سے جان چھوٹے گی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں بجٹ نیوٹرل ہے دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، جو بھی پاکستانی بچہ دنیا میں آتا ہے پہلا شعر یہ کہتا ہے ؎

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا

معاشی بدحالی دیکھی جدھر دیکھا

٭٭ ٭ ٭ ٭

ریلیف پُرتکلیف

اس سےتو حکومت انکار نہیں کر سکتی کہ بجٹ میں پُرتکلف ریلیف تو کجا ریلیف بھی نہیں دیا گیا، البتہ پُرتکلیف ریلیف کی گولی عوام کو دے کر یہ پوچھا جا رہا ہے کچھ ریلیف ملا؟ ہمیں تو سرکاری ملازمین اور بزرگ پنشنرز کی حرماں نصیبی پر افسوس ہے کہ ان کے منہ میں زیرہ تک نہیں ڈالا گیا، بزرگ شہریوں کا جتنا خیال اس حکومت نے رکھا اس کے جواب میں تو یہی کہا جا سکتا، ہن جا وی تینوں رب دیا رکھاں، تیرے ہوندیاں تے میں ساہ وی نہ لے سکاں، تینوں رب دیاں رکھاں! جہاں سے رٹ اٹھ جائے وہاں گڈ گورننس کی کٹ چہ معنی دارد، کورونا کی آمد سے پہلے بے نام کورونا موجود تھا، کورونا نے آکر اسے اپنا نام دے دیا، یہ کیسی عجب بات ہے کہ حکومت پٹرول سستا کر دے اور عوام تک نہ پہنچے، اس کے باوجود کہ پٹرول وافرمقدار میں ذخیرہ اندوزوں کے پاس موجود ہے۔ یہ ہے وہ رٹ آف گورنمنٹ جس نے عام آدمی کو تیل میں ریلیف کا اعلان تو کیا مگر تیل نہ دیا، بلکہ موٹر سائیکل رکشوں پر تیل کے ڈرم رکھوا کر ذخیرہ اندوزوں نے چلتے پھرتے پٹرول پمپ متعارف کرا کے من پسند ریٹ پر تیل بیچنا شروع کر دیا۔ ان لوگوں کو کیا مودی سرکار آکر روکے گی؟ لگتا ہے ریلیف پاکستانی عوام کے نصیب ہی میں نہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ایس او پیز پر عمل پلیز!

٭...ایس اور پیز پر عملدرآمد کا وہی حشر ہوا جیسے عدالتی، حکومتی احکامات پر ہوتا ہے، یہاں دراصل عملدرآمد کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے، ہر نئے دن کے ساتھ ایک نیا ’’پواڑا‘‘ ہوتا ہے پولیس ہماری ہم پر گئی ہم اس پر جان نہ سکے، بہرحال جب یہ ہرگز اچھی کارکردگی نہ دکھائے تب اس کی تعریف کر دینی چاہئے، ہمارا تجربہ ہے کہ کسی برے کو جب اچھا کہا جائے وہ اچھا ہو جاتا ہے، صنعتی ذہنیت، غیبت اور حسد نے کتنے ہی اچھے دماغ چاٹ لئے، بھیک دینے سے بھکاری پیدا ہوتے ہیں، دل دینے سے شکاری پیدا ہوتے ہیں اور معصوم لوگ شکار بنتے ہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین