• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں بوڑھی ہوتی آنکھوں اور ارتعاش زدہ ہاتھوں کے ساتھ اوور سیز پاکستانی ہوں، لڑکپن کے ہمجولی جوانی کے دوست، اپنی دھرتی شہر، گلی، محلہ تیاگے مجھے کوئی پچاس برس بیت چکے، اب میری حالت پہلی رات کی طلاق یافتہ دلہن کی طرح ہو چکی ہے جو اِدھر کی رہی نہ اُدھر کی۔ درست ہے کہ ولایت آنا میری اپنی چوائس تھی۔ گوروں کا دیس اور اس کی گوریاں، میگنا کارٹا پر عمل پیرا آزادانہ ملک کی زندگی اور اس کی سائنسی ترقی یہ سب کچھ مجھے فیسی نیٹ کرتا تھا لیکن میرے پردیسی ہونے کی بڑی وجہ صرف یہی چیزیں نہیں تھیں بلکہ میرے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کی کلیدی وجہ میرے گھر کا معاشی بحران تھا جو اژدھا بن کے ہم سب کو نگلے جا رہا تھا، عمر ہو گئی میں نے بہنیں بھی بیاہیں اور بھائی بھی اور اپنا گھر بھی بسایا۔ جب پاکستان جاتا ہوں تو میرے بیگز لباب بلکہ اوور ویٹ ہوتے ہیں لیکن واپسی پر بیگز کی طرح میری جیب بھی خالی ہوتی ہے۔ پھر میرے ملک کا سماجی، سیاسی، مذہبی و معاشرتی سسٹم بھی مجھے سانس نہیں لینے دیتا تھا، تعلیم کے نام پر جو تعصبات و تنگ نظری نوجوانوں کے اذہان میں انڈیلی جا رہی تھی میں اس میں اَن فٹ تھا، نوکری اوّل تو ملتی نہیں تھی اگر ملتی تو محنت سے انتہائی ناکافی روپے جو ہم سب کے آٹا دال کیلئے کافی نہ تھے، پھر ہر وہ افسر یا سینئر جس کے انڈر چار چھ لوگ کام کرتے تھے ان خدائی فوجداروں کا آمرانہ رویہ جو ہم ’برائون‘ لوگوں کی سرشت میں رچ بس گیا ہے لیکن اس قسم کا رویہ آج بھی جدید و بااخلاق معاشروں سے مطابقت نہیں رکھتا لہٰذا مجموعی طور پر میں اس تنگی و گھٹن سے نکلنا چاہتا تھا۔ بہرکیف میں جیسے تیسے ولایت پہنچ گیا جہاں نہ رنگ میرا تھا نہ زبان میری، صبح میری تھی نہ شام میری، کوئی موسم میرا نہ تھا، بہار و برسات اور نہ ہی کسی اور رُت کی نغمگی، بادِ نسیم میں گیسوئے یار کی اٹکھیلیاں اور نہ سانس روک دینے والی سحر انگیز موسموں کی رُتیں اور نہ سردیوں کی شامیں نہ گرمیوں کی صبح صادق میں سورج کی روپہلی کرنیں یا صبح کاذب کے روح پرور نظارے اور نہ ہی وہ شبنم آسا دن اور نہ ہی چارسو کوئی ایسی جذب و مستی میں بھرائی ہوئی آواز جو کانوں میں رس گھول دے، نہ کوئل کی کوک ، غرضیکہ میری زندگی کی تمام بہاریں خزائوں کی طرح گزریں، حالانکہ ولایت اور خصوصاً لندن کی بوقلمونی کسے نہیں پتا!

ولایت کے تقریباً آٹھ مہینے سال کے شدید سرد موسم میں والدین کی بے پایاں محبت کی گرمی اور نہ بھائی بہنوں، عزیزوں دوستوں کی گرمیٔ جذبات اور چہلیں، یہاں محبتیں سچی تھیں نہ جھوٹی یہاں ہر شے ٹھنڈی تھی، زندگی سٹیریو ٹائپ تھی اور منجمد کر دینے والے شب و روز، یہاں ماں کے ہاتھوں پکے سوندھی خوشبو کے پراٹھے تھے نہ دھلے استری کئے کپڑے، یہاں فقط میں تھا میری تنہائی تھی اور سپاٹ گونگی بہری دبیز دیواریں جو اس قدر خودسر تھیں کہ کسی بات کا کسی سوال کا جواب تک نہیں دیتی تھیں لیکن میں پھر بھی دیواروں سے باتیں کرتا تھا بالکل اسی طرح جیسے شاید ناصر کاظمی نے کہا کہ ؎

دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا

جس کو دیکھو اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں ناصرؔ کون پرایا ہے

شیش محل میں ہر اک چہرہ اپنا لگتا ہے

پچاس سال کی اندھیری راتوں میں تاروں بھرا آسمان شاید ہی کبھی دیکھا ہو، اس دورِ ہجر میں جب سورج جو کبھی کبھار ہی دکھتا تھا، ڈوبنے لگتا اور درختوں کے سائے گہرے اور دراز ہو جاتے تو ’یارانِ وطن‘ کی یاد بھی جاگ اٹھتی تھی۔ بھوک چمکتی تو یہاں قورمہ، کوفتے، شامی کباب، پلائو، متنجن، مرغ، سری پائے، دم پخت، کھیر، حلوے اور شب دیگ وغیرہ یا گرم پھلکے وغیرہ تو نہیں بلکہ ٹھنڈی بریڈ اور ٹیک اوے فوڈ تھا۔ بس اکیلا پن اور کٹیلے سال پہ سال کٹتے رہے یوں تھا کہ میں خود سے سوال کرتا کہ ان رتجگوں کے اور کتنے عذاب دیکھوں گا، نجانے کتنے ماہ و سال آتے رہے نہ عید اپنی ہوتی اور نہ شب برأت کے رنگ نہ سویاں ، نہ شیرینی کا کوئی دم، کچھ بھی نہیں تھا لیکن میں ڈٹا رہا، سب کچھ سہا، شدت سے محنت کی، اپنے پروفیشن کی بھی اور فیکٹری کی بھی، اپنی ’پچھلی ‘ ذمہ داریاں نبھاتے پتا ہی نہ چلا کہ عمر ہو گئی چنانچہ اپنا گھر بھی خود اکیلے ہی بسایا۔ میں نے پائونڈ، ڈالر، یورو، ریال اور دینار پاکستان بھجوانا شروع کئے، 22ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ دیکھتے ہوئے پاکستان کی آتی جاتی حکومتوں نے اپنے مفاد کیلئے مجھے ’پاکستان کے سفیر‘ کا نام نہاد ٹائٹل دے دیا حالانکہ پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر اترو تو ان ’سفیروں‘ کو اپنی اوقات کا کلی علم ہو جاتا ہے یہاں نہ حکومت پوچھتی ہے نہ وہ دوست و رفقا جن کی بیرونِ ملک آنے پر آپ نے دل و جان سے خدمت کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں میرے مکان، زمین پر مافیا قبضہ کر لیتا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ میں تو وہ ہوں کہ قومی ایئر لائن بھی مجھے جی بھر کے لوٹتی ہے۔

اوورسیز پاکستانی ہونا میری چوائس تو تھی لیکن یہ فیصلہ خوشی سے نہیں کیا تھا بلکہ سیاسی و معاشرتی ناہمواریوں، لوٹ کھسوٹ کے نہ ختم ہونے والے ملکی نظام، معاشی تنگ دستی کا اس میں بڑا حصہ تھا لیکن میرے اس بیکراں نوحے کو سمجھنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں، کوئی جاننا ہی نہیں چاہتا کہ میری قربانیاں کس قدر ہیں، میں نے اس سفرِ فراق میں کیا کیا نہیں کھویا!! یقیناً اپنی اپنی زندگیوں کا ختم السفر تو سبھی نے کرنا ہے، ہم سب کیو میں ہیں لیکن بھائی بندو میرا کچھ تو خیال کرو۔ میں اوورسیز پاکستانی ہوں،بے حوصلہ ہوں لیکن پھر بھی اپنوں کی تلاش میں ہوں۔ بقول شاعر ؎

میں کب سے اپنی تلاش میں ہوں ملا نہیں ہوں

سوال یہ ہے کہ میں کہیں ہوں بھی یا نہیں ہوں

تازہ ترین