• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں میلہ چراغاں کے موقع پر مشتاق صوفی اور پروین ملک کی سربراہی میں دربار شاہ حسین پر مشعل بردار جلوس اور چادر پوشی کے موقع پر میں ہر طرف اس میلے کی اصل شکل ڈھونڈتی رہی جہاں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ وہ میلہ جو ہماری تہذیبی روایات کا آئینہ دار اور اجتماعی خوشیوں کا عکاس تھا، جو ایک ایسا پھل اور سایہ دار درخت تھا جس کی جڑیں ایک طرف زمین اور دوسری طرف ہماری روحوں میں اتری ہوئی تھیں کیونکہ ان میلوں کا محرک صوفیائے کرام کی خانقاہیں اور عرس کی تقریبات تھیں۔ ان صوفیاء نے قرآنی آیات ”جدھر دیکھو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے اور انسان ایک ہی قوم ہیں مگر لوگوں نے اختلاف کیا“ کا صحیح مفہوم جاننے کی کوشش کی تو تمام عالم وحدت کی صورت اختیار کر گیا، فلسفہ حقوق العباد کی فضیلت واضح ہوئی، امن، محبت، رواداری اور انسانی بھائی چارے کے مفہوم سے آگہی ہوئی تو کائنات کے تمام انسان ایک ایسے کنبے کی شکل اختیار کر گئے جو ہر قسم کی نسلی، مذہبی اور طبقاتی تفریق سے ماورا تھا۔ خدا کی خوشنودی احترام آدمیت اور خدمت ِ خلق سے استوار ہوئی۔
صوفیاء کے درباروں سے وابستہ میلے مادی اور روحانی خوشیوں کے عکاس تھے۔ عموماً یہ میلے بہار اور کٹائی کے موسموں میں لگتے تھے یعنی جب کسان خوشحال ہوتا تھا تو وہ اجتماعی مسرت کی حامل سرگرمیوں میں شریک ہو کر اپنی اور اپنے کنبے کی تفریح کا اہتمام کرتا تھا۔ ان میلوں کے کئی فوائد تھے۔ یہاں ہر طرح کی گھریلو اشیاء کی خرید و فروخت کیلئے بازار سجتے تھے، کھیلوں کے مقابلوں کا اہتمام ہوتا تھا ، بچوں کی تفریح کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔ جھولے، سرکس، میجک شوز، کھلونے اور ریچھ اور بندر کے تماشے ان کی دلچسپی کا سامان فراہم کرتے تھے۔ طرح طرح کی مٹھائیاں، مشروب اور پکوان تیار ہوتے تھے، لوک داستانوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا تھا، ڈھول، بھنگڑے، لوک رقص اور لوک گائیکی کا اہتمام ہوتا تھا۔ ان میلوں کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی تھی کہ لوگ سال بھر ان کا انتظار کرتے تھے اور اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ دوسری طرف ان میلوں کی روحانی حیثیت بھی مقدم تھی کیونکہ یہ میلے صوفیاء کی فکر اور پیغام کی عملی تعبیر تھے اس لئے یہاں رنگ، نسل، فرقہ، قومیت اور ذات پات کی کوئی تفریق ملحوظ نہیں رکھی جاتی تھی۔ امیر غریب، آقا غلام اور مرد عورت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ یہاں سب کی حیثیت برابر تھی اور کسی کا داخلہ ممنوع نہیں تھا بلکہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کے مظہر ان میلوں میں عورت، مرد، لڑکے، لڑکیاں، بچے اور بزرگ سب ایک خاندان کی طرح شریک ہوتے تھے۔ اس طرح یہ میلے سیکولر روایات کے آئینہ دار تھے جہاں کسی حوالے سے کوئی تقسیم نہیں تھی مگر میلے کی ان تمام مثبت خوبیوں کے باوجود ظاہر پرستوں کو صوفیاء اور ان کے پیروکاروں کا یہ وتیرہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ معاشرے کی طاقتور قدروں کے سامنے وہ بے بس تھے۔ ان دونوں کے اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ دو الگ الگ مکتبہ ٴ فکر کے نمائندے ہیں۔ صوفیاء کا کلام ظاہر پرستی کے خلاف کھلی جنگ کا امین ہے تو مولوی بھی غیر شرعی طریقوں کا الزام لگا کر صوفی کو خوب لتاڑتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صوفی شریعت کو نہیں مانتے بلکہ اصل قصہ یہ ہے کہ صوفی پہلا درجہ طریقت کو دیتے ہیں۔ شریعت ظاہر ہے اور طریقت باطن۔ صوفی باطن کا باشندہ ہے اس لئے اس کا تذکرہ زیادہ کرتا ہے۔ ظاہری اعمال شریعت ہیں تو ان کی حقیقت تک پہنچنا طریقت۔ صوفی مراد اور طلب سے بے نیاز ہے۔ وہ ایسے عاشق کے رتبے پر فائز ہونا اہم خیال کرتا ہے جس کا ہر پل محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار ہو۔ اس کے سانس کی تسبیح محبوب کے ذکر سے عبارت ہے اور وہ اک پل کی غفلت کو کفر کے مصداق ہے۔
ہماری دھرتی کے زیادہ تر میلے صوفیاء کے درباروں سے وابستہ ہیں کیونکہ صوفیاء دھرتی، دھرتی کے باسیوں، دھرتی کی زبان اور دھرتی کی ثقافت کو معتبر سمجھتے تھے۔ بدقسمتی سے جب ہم سے ہماری تہذیبی اور ثقافتی پہچان چھینی گئی وہ میلے بھی ہم سے چھن گئے جن کے دامن اجتماعی خوشیوں کے خزانوں سے معمور تھے کیونکہ جب کسی دھرتی کے باسیوں سے ان کے تہوار، زبان اور منفرد پہچان کی حامل تہذیب و ثقافت چھین لی جائے تو وہ اپنی ہی دھرتی پر اجنبی بن کر دھرتی کو سنوارنے کے بجائے اجاڑنے کی ایسی راہ اپناتے ہیں کہ کسی دوسرے کو ان پر حملہ کر کے انہیں فتح اور پسپا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ مغلوں کے دور میں ہم سے ہماری زبان چھینی گئی۔ ہم نے اپنی زبان کیلئے کوشش کرنے کے بجائے نئی زبان کو اختیار کر لیا مگر گونگے بن کر بھی دھرتی سے جڑے رہے۔ اپنے تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور رسم و رواج سے کبھی ہمارا رابطہ منقطع نہ ہوا اور یوں معاشرے میں مثبت اور تعمیری قدروں کا فروغ جاری رہا۔ پھرایک غیر ملکی طاقت جس کے پاس اسلحہ، طاقت اور مادی دولت تھی کو دوسری طاقت کو ہرانے کے لئے ایسی افرادی قوت کی ضرورت آن پڑی جو تن من دھن سے ان کے مفادات کو اپنا مقصد حیات بنا لے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ایک خاص کلچر کے بیج بونے اور انسانیت کو کئی درجوں اور سطحوں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا یوں عشق والوں کے در علم والوں کے زیر تسلط ہو گئے۔ صوفیاء کے درِ فیوض و برکات سے مستفید ہونے کے باوجود دونوں کی فکر میں ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکی اور رفتہ رفتہ میلہ گم ہونے لگا۔
آج وہ تمام میلے گم ہو چکے ہیں جہاں تمام طبقوں کی رسائی یکساں تھی۔ اب امراء، غرباء اور سفید پوشوں کے میلے جدا جدا ہیں۔ امراء کے میلے فن فیئر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جہاں مادی خوشیوں کی بہتات ہے مگر روحانی مسرت ناپید ہے اور غریب مصائب کی گٹھڑی تلے خوشی اور غم، نیند اور بیداری کی کسی درمیانی منزل پر ایستادہ تلخ حالات کی سولی سے بچنے کے لئے اپنے لہو کے بدلے عارضی سکون خریدنے کے لئے قبروں کی اوٹ میں پڑے ہیں۔ آئیے کھوئے ہوئے میلے کو تلاش کر کے اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اس دھارے پر لائیں جو معاشرے کو ہم آہنگی کی رسی میں پرو دے ورنہ تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے ہم زندگی میں ہی اپنے گرد دیواروں کو بڑھاتے بڑھاتے قبر کی طرح محدود ہو جائیں گے۔ میلے میل ملاپ کا ذریعہ تھے آج ہم لوگوں کے بے ہنگم ہجوم میں خود سے بچھڑے ہوئے عجیب سے انسان بن چکے ہیں۔ آئیے اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے سارے تہواروں کو اصل صورت میں بحال کر کے میل ملاپ اور صحت مند تفریح کا اہتمام کریں تا کہ تعمیر اور امن کا نیا سفر آغاز ہو۔
تازہ ترین