• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ پر مختلف کالموں میں، میں نے اِس بات کا اظہار کیا تھا کہ حکومت کیلئے نیا بجٹ یقیناً ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بجٹ سے ایک دن پہلے 2019-20ءکے اکنامک سروے میں حکومت نے اپنے پورے سال کی خراب معاشی کارکردگی کی پوری ذمہ داری کورونا وائرس پر ڈال دی حالانکہ کورونا کے ملکی معیشت پر مضر اثرات آخری 3مہینوں مارچ سے مئی میں پڑے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس سے ملکی معیشت کو 2500ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ معاشی کارکردگی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت کی تمام شعبوں میں مایوس کن کارکردگی گزشتہ پورے مالی سال رہی جس کے نتیجے میں جی ڈی پی گروتھ 3.3فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.4فیصد رہی۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 2.3فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 2.64فیصد، زراعت کے شعبے میں اپنے ہدف 3.5فیصد کے مقابلے میں منفی 2.67فیصد اور سروس سیکٹر کا ہدف 4.8فیصد کے مقابلے میں منفی 0.59فیصد رہا۔ ایف بی آر کے ریونیو وصولی کے ہدف میں بھی تقریباً 900ارب روپے کمی رہی ہے اور اس طرح حکومت 2019-20میں امپورٹس، ایکسپورٹس، سرمایہ کاری، حکومتی خسارے میں چلنے والے ادارے کی نجکاری اور سرکولر ڈیٹ کی ادائیگی سمیت کوئی بھی معاشی ہدف حاصل نہیں کرسکی۔ 2020-21کے بجٹ میں حکومت نے جی ڈی پی گروتھ 2.1فیصد، مینوفیکچرنگ سیکٹر 0.7فیصد، بڑے درجے کی صنعتیں 2.5فیصد، زراعت 2.9فیصد، سروس سیکٹر 2.6فیصد اور ریونیو وصولی کا ہدف گزشتہ سال کے 3900ارب روپے سے بڑھا کر 4900ارب روپے رکھا ہے جو میرے نزدیک موجودہ معاشی بحران اور مندی میں ایک ہزار ارب روپے اضافی ریونیو وصول کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ امپورٹ، ایکسپورٹس اور دیگر ملکی معاشی سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں۔ ملک میں فی کس آمدنی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں 2017-18میں فی کس آمدنی 1651ڈالر تھی جو 2018-19میں کم ہوکر 1455 ڈالر اور 2019-20 میں 1355ڈالر ہو گئی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ایک عام پاکستانی کی فی کس آمدنی میں مسلسل کمی آر ہی ہے جو معیار زندگی کو پست کررہی ہے اور غربت میں اضافے کا سبب ہے۔

بجٹ میں ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس کی چھوٹ یا سنگل ڈیجٹ سیلز ٹیکس کے مطالبے کو حکومت نے نہیں مانا جس سے چھوٹے ایکسپورٹرز مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ اُنہیں ہر کنٹینر کی ایکسپورٹ پر 17 فیصد سیلز ٹیکس حکومت کو ایڈوانس ادا کرنا پڑتا ہے جس کی واپسی کیلئے اُنہیں کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے جو اُن کے کیش فلو اور ورکنگ کیپٹل کو بری طرح متاثر کررہا ہے اور جس سے ملکی ایکسپورٹس میں کمی آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی اور لاہور چیمبرز، پاکستان بزنس کونسل، اوورسیز انویسٹر چیمبر اور فیڈریشن نے بجٹ کو صنعت کیلئے مایوس کن قرار دیا ہے۔ میں نے اپنے گھر سے ٹی وی چینلز کے مختلف بجٹ مباحثے میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ گلوبل ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی خریداروں نے اپنے موجودہ اور نئے آرڈرز روک دیئے ہیں جس کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس گزشتہ سال کے مقابلے میں اپریل میں 54فیصد اور مئی میں 37فیصد کم ہوئی ہیں اور مستقبل قریب میں عالمی معاشی بحران کی وجہ سے مجھے ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت بھی میرے اِس نقطہ نظر سے پس پردہ متفق نظر آتی ہے کیونکہ گزشتہ سال مینوفیکچرنگ سیکٹر کی 2.64فیصد منفی گروتھ اور اس سال گزشتہ 68برسوں میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کی سب سے کم 0.7فیصد گروتھ کا ٹارگٹ اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں حکومت مینوفیکچرنگ سیکٹر سے زیادہ پراُمید نہیں۔ بجٹ میں خام مال اور مشینوں کے امپورٹ پر ریگولیٹری کسٹم ڈیوٹی کم کرنا خوش آئند ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالموں اور ٹی وی انٹرویوز میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں مینوفیکچرنگ سیکٹر کے علاوہ اپنے دیگر مقامی شعبوں جن میں زراعت، ڈیری، لائیو اسٹاک، فشریز، حلال میٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کنسٹرکشن اور ڈومیسٹک کامرس شامل ہیں، کو فروغ دے کر مینوفیکچرنگ سیکٹر کی کمزور کارکردگی کو پورا کرنا چاہئے ورنہ صنعتوں کے بند ہونے سے ملک میں بیروزگاری کا طوفان کوئی نہیں روک سکے گا جو ملک میں غربت میں اضافے اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کریگا۔ اس بجٹ میں کورونا وائرس کی وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت کے شعبے کیلئے صرف 20ارب روپے مختص کئے گئے ہیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت اور تعلیم کے شعبے صوبائی حکومتوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں سے مل کر ملک میں کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے ایک مضبوط ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر فراہم کرے۔ میں نےکوشش کی ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کے مستقبل کیلئے حکومتی ترجیحات اپنے قارئین سے شیئر کروں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

تازہ ترین