• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا میں حکومت کی طرف سے اور دیگر افراد کی طرف سے سب سے زیادہ زور صفائی پر دیا گیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ صفائی کا معیار صرف سینیٹائزر کے استعمال، صابن سے بار بار ہاتھ دھونے اور ماسک کے پہننے تک رکھا گیا ہے اور ان کی گردان بذریعہ اشتہار اور موبائل فونز کے پیغام کے کی گئی ہے۔صفائی کے معیار اور قدرتی ماحول کو بہتر کرنے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ گندگی، کچرے کے ڈھیر، اور گٹروں کا ابلنا نظر آرہا ہے ہے جو کہ کہ انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ اور وائرس کو پھیلانے کے اہم ذرائع بھی۔ لیکن احکام بالا کی نظر سے یہ بالکل اوجھل ہیں۔ نا ان کے اوپر کوئی آواز اٹھا رہا ہے اور نا ہی اس کو مسئلہ سمجھا جارہا ہے۔ ذرہ سوچئے کہ آپ بازار سے کوئی چیز لے کر آتے ہیں ہیں تو پہلے اسکو سینیٹائز کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس چیز کو استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ کچرے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ہے نہ اس کو ڈھانکنے کی ضرورت ہے نہ ہی اس کو کو ٹہکانے لگانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اب تو وہ کچرا ہے۔ یعنی کچرا تو بے جان چیز ہوتی ہے اور بے جان سے کیا خطرہ ہو نا؟ جبکہ دوسری طرف اگر کسی کا کورونا میں انتقال ہو جائے تو اس کو نا چھوا جاسکتا ہے نہ نہلایا جا سکتا ہے اور نا اس کے جنازے میں لوگ جا سکتے ہیں۔ لیکن استعمال شدہ چیز کا ناقابل استعمال ہونے اور کچرا بننے کے بعد "بے ضرر ہو جانا" ناقابل فہم ہے۔ لیکن ایسا ہی ہے۔ لاک ڈاون میں سختی کے وقت ریستوران بند تھے تو کچرے میں بہت کمی تھی۔لیکن اب اسمارٹ لاک ڈاون میں ہر کوئی آزاد ہے۔ جہاں دل چاہے کچرے کا ڈھیر لگا دو کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ "کورونا تو لوگوں سے پھیلتا لوگوں کی استعمال کی ہوئی چیز سے تھوڑی کوئی"۔ ہائے رے عقل انسانی! اس پر سونے پہ سہاگہ گٹروں کا ابلنا! گھر میں لوگ زیادہ ہیں سودا سلف زیادہ آرہا ہے۔ استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی نہیں جارہی اسی لئے نالیاں بھر رہی ہیں جو بعد میں گٹر ابلنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ لیکن چونکہ سماجی فاصلہ گٹر کی صفائی سے زیادہ اہم اس لئے بلدیہ کا عملہ لاکھ بلانے کے باوجود حاضر نہ ہو گا۔ آپ شکایت کرتے رہیئے نا کچرے کا ڈھیر ہٹے گا نا ہی بند گٹر کھولے جائیں گے۔ چاہے اس بہتے گٹر کا پانی کورونا کے مریض کے ہی غسل کرنے سے جمع ہوا ہو ؟آپ پائنچا اوپر کیجئے اور چھلانگ لگائے بس پل صراط پار۔اصل جراثیم تو صرف بازار، بنک ، تعلیمی اداروں اور انسانوں میں ہوتے ہیں ۔ ان کے استعمال میں آنے والی اشیاء جراثیم کش ہوتی ہیں۔ لہذا اگر سڑک پر پڑی ہوتی ہیں تو کیا حرج ہے؟ بدبو آبھی رہی ہے تو سانس روک لیں، گاڑی کا شیشہ بند کرلیں بدبو آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گی کیونکہ سینیٹائز کرکے یہ اشیا استعمال کی گئیں تھیں۔ گھبرائیں نہیں یہ بدبو آپ کا کچھ نہیں بگاڑے گی ۔لہذا برائے مہربانی بلدیاتی عملے کو زحمت دینے کا نا سوچیں ایک سرنمائندے کی جان بہت اہم ہے اسے خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔اسی طرح کی صورتحال باغوں یعنی سرکاری پارکس کی بھی ہے ۔ جہاں سماجی فاصلہ برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے عوام کے داخلے کے ساتھ ساتھ ان کے عملے کے داخلے پر بھی پابندی یے۔ جس کی بدولت پانی نہ ملنے کیوجہ سے سارے پودے، گھاس اور درخت مرجھائے کے بعد بےجان ہوچکے ہیں ۔ کیا فرق پڑتا ہے کوئی بات۔ بڑے دکھ کی بات ہے اسی کالم میں متعدد بار اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا اس لاک ڈاون میں ماحولیاتی آلودگی میں خاطر خواہ کمی ہوئی تھی۔ جس سے انسانی صحت اور دیگر جانداروں پہ مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔ مگر افسوس کورونا کا خطرہ اپنی جگہہ موجود ہے اور عوامی اور سرکاری دونوں جانب سے کی جانے والی غلط رویوں کی بدولت اس میں مزید شدت نا آجائے۔ یقینا احتیاط علاج سے بہتر ہے صرف ایک نعرہ نہیں ہونا چاہیئے ۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین