• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈائون ایک ناپسندیدہ اور نقصان دہ عمل ہے۔ معیشت کیلئے تباہ کن تو سماج کیلئے مصیبت لیکن المیہ یہ ہے کہ کورونا کے سلسلے کو توڑنے کا ابھی تک دنیا نے اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہی ایجاد نہیں کیا۔

چین، روس، امریکہ، سعودی عرب، ترکی غرض دنیا کے ہر ملک کو لامحالہ یہی راستہ اپنانا پڑا۔ ہمارے ہاں ان ممالک کی نسبت غربت بہت زیادہ ہے لیکن معیشت جتنی بڑی اور ترقی یافتہ ہواکرتی ہے، لاک ڈائون اس کیلئے اتنا ہی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔

مثلاً پورے پاکستان کو بند کرنے سے جتنا نقصان ہوگا اس سے کئی گنا زیادہ امریکہ کو صرف نیویارک شہر کی بندش سے ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ افغانستان میں سینکڑوں دھماکوں سے وہاں کی معیشت اتنی متاثر نہیں ہوتی جتنی پاکستان میں ایک دھماکے سے ہوجاتی ہے کیونکہ افغانستان میں اسٹاک ایکسچینج کا مسئلہ ہوتا ہے اور نہ باہر کی دنیا کی ٹریول ایڈوائزری وغیرہ کا۔

ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو گھروں کے اندر لمبے عرصہ تک کھلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں غربت بہت زیادہ ہے اور حکومت لوگوں کو گھروں پر نہیں کھلاسکتی لیکن یہاں بھی غربت اور بھوک کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہئے۔

کورونا سے قبل بھی ہماری جی ڈی پی گروتھ تاریخ کے کم ترین شرح پر آگئی تھی اور لاک ڈائون نہ ہو تو بھی ہم لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں،مناسب تعلیم، صحیح علاج اور نہ دیگر سہولتیں۔

یہاں ہمہ وقت ہر شخص اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہوتا ہے لیکن جتنی یہاں غربت زیادہ ہے، الحمدللہ اتنی یہاں بھوک نہیں ہے۔ ہماری سماجی ساخت، خاندانی نظام اور انفاق کے رجحان کی وجہ سے آج تک کوئی بھوک سے نہیں مرا۔ لوگ حادثات سے مرتے ہیں، علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں، ڈپریشن اور نشہ کرنے کی وجہ سے مرتے ہیں لیکن مطلق بھوک سے کوئی کسی کو مرنے نہیں دیتا۔پاکستان تو پاکستان ہے آج تک جنگ زدہ افغانستان سے بھی کسی کے بھوک سے مرنے کی خبر نہیں آئی۔

البتہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک جہاں خاندانی اور سماجی نظام کمزور ہے اور جہاں کھلانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے، وہاں اگر زیادہ عرصہ لاک ڈائون ہوتوہوسکتاہے کہ لوگ بھوک سے مرنے لگ جائیں۔ویسے بھی یہ معیشت اور روزگار وغیرہ اس وقت درکار ہوتےہیں جب انسان زندہ ہوں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا سے سب سے زیادہ غریب متاثر ہوتے اور مرتے ہیں، اس لئے لاک ڈائون نہ کرنے کیلئے غریب کو ہتھیار بنانا شاید زیادتی ہے۔

ہم سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کورونا کے چین سے ایران تک پھیلنے کے باوجود ہم نے احتیاطی تدابیر اور نہ مناسب تیاری کی۔ اس سے بڑی غلطی یہ کی کہ لاک ڈائون لگانے کیلئے تیاری کی اور نہ اٹھانے کیلئے۔ بروقت لگانے کے بجائے دیر سے لگایا اور پھر عید کے دنوں میں ایسے وقت میں کھول دیا جب متاثرین اور ہلاکتوں کا گراف اوپر جارہا تھا۔

ہمارا لاک ڈائون بھی برائے نام تھا اور کئی حوالوں سے اس پر عمل بھی نہیں ہوا لیکن ہم نے لوگوں کو پہلے سے مطلع اور مناسب تیاری کئے بغیر پہلے تو لاک ڈائون کردیا اور پھر اسی طرح مناسب اقدامات کے بغیر اس کو اٹھالیا، جس کی وجہ سے لوگ بازاروں اور کاروباری مراکز پر ٹوٹ پڑے اور نتیجتاً کورونا گھر گھر پہنچ گیا۔

لاک ڈائون نرم کرنے سے قبل ماسک نہ پہننا جرم قرار دینا چاہئے تھا لیکن ہماری حکومت آج کئی ماہ بعد ماسک لازمی قرار دے رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عوام اور ڈاکٹروں کو کورونا اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹروں کی مہارت اور شعبہ ہے۔بدقسمتی سے وقت نے ڈاکٹروں کی پیشینگوئیوں کو حرف بحرف درست جبکہ حکومت کے اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔

اس لئے اب ضد چھوڑ کر ڈاکٹروں کی بات مان لینی چاہئے۔ اب کی بارلاک ڈائون تیاری کے ساتھ کیا جائےاور مناسب اقدامات کے بعد اٹھایا جائے۔ پہلے لاک ڈائون میں لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ لاک ڈائون کب ختم ہوگا، اس لئے بے چینی زیادہ تھی۔ اس لئے اب حکومت WHO کی تجویز مان کر پہلے سے اعلان کرد ے کہ لاک ڈائون دو ہفتوں کیلئے کیا جائے گا تاکہ لوگ اس حساب سے اپنی منصوبہ بندی کرسکیں۔

اسی طرح لاک ڈائون سے قبل لوگوں کو تیاری کیلئے ایک یا دو دن کی مہلت دی جائے اور ان دنوں میں دکانوں اور بینکوں وغیرہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ لوگ وہاں ٹوٹ نہ پڑیں اور باری باری اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ حکومت نے یہ بھی غلطی کی کہ جب لاک ڈائون ختم کیا تو بازاروں کیلئے پانچ بجے تک کا وقت رکھا چنانچہ جب لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوکہ پانچ بجے سب کچھ بند ہو جاناہے تو وہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

بیشک لاک ڈائون شہروں تک محدود ہو، دیہات میں کسانوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے لیکن وہاں ایس اوپیز پرپولیس کے ذریعے سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔لاک ڈائون کے دوران لوگوں کی رہنمائی اور ان تک مدد پہنچانے کیلئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو وقتی طور پر بحال کیا جائے کیونکہ باہر کےعلاقوں سے آئے ہوئے سرکاری افسران کی نسبت یونین کونسل کی سطح پر منتخب ممبران اچھی طرح جانتے ہیں کہ علاقے میں کون غریب ہے اور کس کا گزارا ہوسکتا ہے۔پی ٹی آئی ٹائیگرز فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔

یہ کام انکے بجائے لوکل گورنمنٹ کے ممبران ہی بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ وزیراعظم مرکز کی سطح پر اور وزرائے اعلیٰ صوبوں کی سطح پر فلاحی اداروں کا اجلاس بلائیں اور ان میں تقسیم کار کریں کہ وبا کے دنوں میں کس نے کیا کام کرنا ہے۔ جب تک کورونا کا مسئلہ ہے تب تک کورونا کا علاج کرنے والے تمام طبی عملے کی تنخواہوں کو ڈبل کردیا جائے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ این سی او سی میں ڈاکٹر طاہر شمسی، ڈاکٹر عطاالرحمٰن،ڈاکٹر شاذلی منظور، ڈاکٹر سعید اختر، ڈاکٹر جاوید اکرم(یہ وہ ڈاکٹرز ہیں کہ حکومتی ماہرین کے برعکس جن کے اندازے بالکل درست ثابت ہوئے ہیں) کو بھی شامل کیا جائے بلکہ اگر اس میں ڈاکٹر غلام صابر جیسے ہیومیوپیتھ اور قدیم طب کے ایک آدھ جینوئن ماہر کو بھی شامل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

تازہ ترین