• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ برس پرانی خبر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ خبر آپ نے سنی ہوگی۔ وہ خبر آپ نے پڑھی ہوگی ۔ وہ خبر آپ نے دیکھی ہوگی ۔ جب تک ٹیلی وژن نے ہمارے معاشرے میں قدم نہیں رکھا تھا ، تب تک ہم خبریں پڑھتے تھے اور خبریں سنتے تھے۔ ٹیلی وژن کے آنے کے بعد ہم خبریں دیکھنے لگے ہیں۔ خبریں آپ تب دیکھتے ہیں جب ایک خبر کو شکل وصورت مل جاتی ہے میں جس خبر کا ذکر کررہا ہوں، اس خبر کو بڑی بھیانک شکل مل گئی تھی ۔ دیکھنے والے دیکھتے ہی پریشان ہوجاتے تھے۔ کراچی سے لاہور جانے والی ایک ٹرین کا ایک ٹرین کا ایک ہی پٹری پر رواں لاہور سے کراچی آنے والی ٹرین سے خوفناک تصادم ہوگیاتھا ۔ بہت بڑی تعداد میں مسافر حادثے میں مارے گئے تھے اور زخمی ہوئے تھے ۔ چھان بین کرنے والوں نے پتا چلا لیا کہ جس دن کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی جانے والی ٹرینوں کا تصادم ہواتھا اس دن کراچی اور لاہور میں حق وباطل کے درمیاں جنگ جاری نہیں تھی لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی جانے والے مسافر حق وباطل کی جنگ میں حق کی طرف سے لڑنے کے لیے لاہور اور کراچی نہیں جارہے تھے ۔ اس لیے خبریں دکھانے اور خبریں سنانے والوں نے ہولناک ٹرین حادثے میں مرنے والے مسافروں کے لیےلفظ شہید استعمال نہیں کیا تھا۔ شہید ہونے کے لیے آپ کا حق وباطل کی جنگ میں حق کی طرف سے لڑنا اور لڑتے لڑتے مرجانا ضروری ہوتا ہے۔ شہادت کا اعلیٰ مرتبہ یوں ہی نہیں ملتا۔ مثلاً ایک دفعہ ہمارے گلی کوچوں میں داخل ہوکر دشمن نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ اس وقت میں سبزی والے سے کریلے خرید رہا تھا۔ ڈر کے مارے میں سبزی والے کی ریڑھی کے نیچے دبک کر بیٹھ گیا۔ مگر ریڑھی والے نے ایسا نہیں کیا ریڑھی کے نیچے لیٹ کرجان بچانے کے بجائے ریڑھی والے نے ترازو کے لوہی بٹے دشمن کے دہشت گردوں کی طرف پھینکے اور پھر ایک ڈنڈا لیکر للکارتے ہوئے دہشت گردوں پر ٹوٹ پڑا۔دیکھتے ہی دیکھتے دشمنوں نے سبزی والے کو گولیوںسے چھلنی کردیا۔ ایسے میں دوچار گولیاں مجھے لگیں ۔ میں بھی مرگیا۔ لکھنے والوں نے جائز طور پر سبزی والے کو شہید لکھا۔ مجھے حیرت تب ہوئی تھی، اور اب تک حیرت ہوتی رہتی ہے، جب لکھنے والوں نے مجھے بھی شہید لکھ کر شہیدوں کی صف میں کھڑا کردیا تھا ۔ میں تو کریلے خرید رہاتھا ۔ گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے میں ریڑھی کے نیچے دبک کر بیٹھ گیا تھا ۔ تب مجھے دوچار گولیاں لگی تھیں اور میں مرگیا تھا ۔ سبزی والے کی طرح میں نے باطل کو کب للکارا تھا؟ میں تواپنی جان بچاتے ہوئے مارا گیا تھا ۔پھر میں کیسے شہادت کے رتبے کا حق دار ہوا ؟ مگر کیا کیا جائے کہ آسمانوں پر ہونے والے فیصلوں کا حق زمین والوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ وہ جس کو چاہیں شہادت کے رتبے سے نواز سکتے ہیں۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

حج کی سعادت پوری کرنے کیلئے میں بس میں سفر کررہا تھا، اچانک بس میں آگ بھڑک اٹھی ۔ کئی مسافر جل کرجاں بحق ہوگئے ۔ ان میں ایک میں بھی تھا ۔ میں مرگیا۔ سعودی اخباروں نے ہمیں شہادت کا رتبہ نہیں دیا مگر ہمارے اپنے پیارے وطن میں لکھنے والوں نے ہمیں شہادت کے رتبے سے نوازا اور ہمیں شہید لکھا۔ اپنی بات کرتے ہوئے میں نے اپنے ہم وطنوں کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو بھائی ، حق وباطل کے معرکہ میں حصہ لینے کے لیے میں سعودی عرب نہیں گیا تھا ۔ میں حج کرنے گیا تھا ۔ بڑا گنہگار ہوں۔ خطائوں کا پتلا ہوں۔ میں تو بہ تائب ہونے کے لیے سعودی عرب گیاتھا۔ میں اپنے گناہ معاف کروانے گیا تھا ۔ میں باطل سے لڑنے نہیں گیاتھا ۔ میں باطل سے لڑتے ہوئے نہیں مرا تھا ۔ سفر کے دوران بس میں آگ لگنے سے میں بھسم ہوکر مرا تھا ۔ پھر آپ ہم وطنوں نے مجھے شہادت کے رتبے سے کیوںنوازا ہے؟آپ تو جانتے ہیں کہ میں بڑا تگڑم قسم کا آدمی ہوں۔ اثر رسوخ چلاکر میں کسی زمانے میں چاند دیکھنے والی کمیٹی کا ممبر بن گیا تھا۔ ایک پندرہ منزلہ عمارت کی چھت سے کئی روز تک ہم چاند دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس دوران ہم بڑی یادگار شامیں گزارتے تھے۔ تب ہمارے پاس ایک دس فٹ لمبی دوربین ہوا کرتی تھی ۔ میں اس دوربین سے زمین سے دور دوسری دنیائوں میں ایک چاند دیکھنے کی کوشش کرتا تھا ۔ اس کوشش میں ایک مرتبہ میں پندرہ منزلہ عمارت کی چھت سے گرپڑا اور مرگیا۔ لکھنے والوں نے مجھے شہادت کا رتبہ دے دیا اور میری تصویر کے نیچے میرے نام کے ساتھ مجھے شہید لکھا ۔ دوسرے روز میں نےایڈیٹر صاحب کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ حضور میں باطل سے لڑنے کے لیے پندرہ منزلہ عمارت کی چھت پر نہیں جاتا تھا ۔ میں چاند دیکھنے جاتا تھا ۔ مجھے مناسب نہیں لگتا کہ چاند دیکھتے ہوئے چھت سے گر کرمرنے پر آپ مجھے شہید لکھیں مگر مرے ہوئے کی بات کون سنتا ہے۔ایڈیٹر صاحب نے میری بات سنی ان سنی کردی ۔

ایک مرتبہ ایک ریل گاڑی پٹری سے اتری اور ماڈل کالونی ملیر میں گھس گئی ۔ اس انہونے حادثہ میں ٹرین میں سوار کئی سوار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جان سے ہاتھ دھونے والے مسافروں میں ایک میں بھی تھا ۔ لکھنے والوں نے ہمیں شہادت کے رتبہ سے نہیں نوازا ۔ہم جاں بحق ہوگئے تھے ۔ مرگئے تھے۔ شہید نہیں ہوئے تھے ۔ میں نے اپنے ایک دوست لکھنے والے سے پوچھا! یار تم نے مجھے شہید کیوں نہیں لکھا؟ دوست لکھنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا: اس کیلئے تمہارا ہوائی جہاز کے حادثے میں مرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین