• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ بعید نہیں کہ آنے والے انتخابات کے نتیجے میں میرے ماضی بعید کا ہم پیشہ دوست گپی پاکستان کا وزیراعظم لگ جائے! سندھ کا وزیر اعلیٰ لگ جائے! ایک بات طے ہے کہ گپی صوبہ خیبرپختونخوا، پنجاب یا بلوچستان کا وزیراعلیٰ نہیں لگ سکتا۔ اس کے اسباب میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔ اشارتاً میں آپ کو کرکٹ کی زبان میں بتا دوں کہ سندھ گپی کا ہوم گراؤنڈ ہے۔ وہ یہاں اپنی مرضی کے مطابق پچ تیار کروا سکتا ہے، بالنگ اور بیٹنگ میں مخالفین کے چھکّے چھڑا سکتاہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ گپی پاکستان کا صدر کیوں نہیں لگ سکتا؟ یوں تو لگنے کو گپی پاکستان میں کچھ بھی لگ سکتا ہے، مثلاً اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا صدر لگ سکتا ہے لیکن وہ پاکستان کا صدر نہیں بن سکتا۔ اگرآپ اب بھی بضد ہیں کہ میں منہ سے کچھ پھوٹوں، کچھ کہوں تو میرے بھائیو اور میری بہنو میں جھوٹا ضرور ہوں لیکن بیوقوف نہیں ہوں۔ میںآ پ کو اپنیکندھے پر رکھ کر بندوق چلانے نہیں دوں گا۔ آپ اپنی بندوق اپنے کندھے پر رکھ کر چلائیے۔ مجھے ابھی شادی کرنی ہے،گھر بسانا ہے، بال بچے پیدا کرنے ہیں، ایک مکان بنانا ہے، ایک موٹر سائیکل خریدنی ہے، بچوں کو انگریزی اسکول میں پڑھنے کے لئے بھیجنا ہے۔ میں اپنی قیمتی جان جوکھوں میں ڈالنا نہیں چاہتا، میں اپنے ہونے والے بچوں اور اپنا اور اپنی بیوی کا درخشاں مسقبل تباہ کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے میرے بھائیو اور میری بہنو مجھ سے مت پوچھو کہ گپی پاکستان کا صدر کیوں نہیں بن سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں گپی پاکستان کا صدر کیوں نہیں بن سکتا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے منہ سے اصل بات اگلوا کر آپ میرا تماشہ دیکھنا چاہتے ہو!
آج آپ جب یہ کتھا پڑھ رہے ہیں، آپ جان چکے ہوں گے کہ گپی نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے ہیں۔ اگرآپ گپی کے بدخواہ ہیں تو آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دوسرے مرحلہ پر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران گپی کے کاغذات مسترد کر دیئے جائیں گے۔ مجھ جیسے گپی کے بیشمار خیر خواہ دعاگو ہیں، پُرامید ہیں کہ گپی کے کاغذات نامزدگی قبول کئے جائیں گے اور وہ اللہ کے فضل و کرم سے انتخابات میں کامیاب ہو گا اور اس کے مخالفین کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ مجھے معلوم ہے کہ گپی پر اٹھنے والی انگلیاں بہت ہیں لیکن آج تک کسی بدخواہ نے گپی کے خلاف شواہد پیش نہیں کئے۔ انسان کے اندر حسد اور جلن کی ایندھن وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ جب اوپر والا کسی کو چھپر پھاڑ کے دیتا ہے تب ہمارے اندر حسد اور جلن کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ ہم چلّا اٹھتے ہیں کہ اوپر والا صرف گپیوں کے لئے چھپر کیوں پھاڑتا ہے ہمارے لئے چھپر کیوں نہیں پھاڑتا؟ اگر کبھی چھپر پھاڑتا ہے تو برسات کے موسم میں چھپر پھاڑتا ہے۔ میں بھی شروع شروع میں گپی سے بہت جلتا تھا۔ ماضی بعید میں ہم دونوں سنیما کے ٹکٹ بلیک میں بیچتے تھے۔ بلیک میں ٹکٹ بیچنے والے گروپ کے ممبر ہوتے تھے، بلیک سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ گروپ کے گرو کو دیتے تھے۔ گرو صدر پولیس کی مٹھی گرم رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارا گروپ صدر کے سنیماؤں پر چھایا ہوا تھا۔ کیپٹل، پیراڈائز، ریکس، ریو، ریگل اور پیلس سنیما کے ٹکٹ گرو خود بلیک کرتا تھا۔ وہ دن بھی کیا دن تھے جب صدر کی سنیماؤں میں بن حر، کوواڈس، سیمسن ڈیلائیلہ، مکینار گولڈ اور تھیف آف بغداد جیسی فلمیں چلتی تھیں اور ہم دبا کر بلیک میں ٹکٹ بیچتے تھے۔ ”دباکر“ ہم پرانے کراچی والوں کا محاورہ ہے مثلاً دبا کر جھوٹ بولنا، دبا کر ہیرا پھیری کرنا ، کھانے میں دبا کر مرچی ڈالنا۔ کراچی کے ہم پرانے باسی اب بھی مرچ کو مرچی کہتے ہیں، ہمارا اپنا لہجہ ہے۔ ”مجھے تمہاری بات اچھی نہیں لگی“ کے بجائے ہم کہتے ہیں۔ ”میرے کو تیری بات اچھی نہیں لگی“ اب اپنے ہی شہر کراچی میں ہماری تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ گپی اب بھی ہم پھٹیچروں والی بولی بولتا ہے یا اشرافیہ کے لہجے میں بات کرتا ہے۔
گپی کے ارب پتی بلکہ عرب پتی اور کھرب پتی بن جانے اور اپنے دس مرتبہ ابالی ہوئی چائے کی پتی رہ جانے کے بعد میں گپی سے جلتا تھا، جل جل کر راکھ ہو رہا تھا۔ تب مجھے ایک روز ملّا شمر نامی ایک شخص ملا۔ اس نے پوچھا ”تو اس قدر پریشان کیوں ہے؟
”گپی اور میں ایک ہی کام کرتے تھے“ میں نے جل کر کہا ”آج گپی کے پاس سب کچھ ہے، میرے پاس نہ ماں ہے نہ اور کچھ ہے۔ ایسا کیوں ہے ملّاشمر؟“
”گپی کے پاس جو کچھ ہے وہ دنیاوی ہے، عارضی ہے“ مجھے بدنما جیکٹ دیتے ہوئے ملّا شمر نے کہا ”فلاں جگہ فلاں فرقہ کا اجلاس ہو رہا ہے جا کر انہیں اڑا دے۔ دھماکہ ہوتے ہی تجھے جنت کی لذتیں مل جائیں گی جس کا تو زمین پر تصور بھی نہیں کر سکتا“۔
میں نے پوچھا ”کیا مجھے پاکستان کی قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ مل جائے گی؟“
ملّاشمر نے غصے سے جیکٹ مجھ سے چھین لی اور افغان پرشین میں مجھے برا بھلا کہا، جس کا ترجمہ بعد میں کسی نے بتایا”تم نہ دوزخ میں جاؤ گے اور نہ جنت میں جاؤ گے اور قیامت تک بھٹکتے رہو گے“۔
یہ واقعہ میں نے آپ کو اس لئے سنایا ہے تاکہ آپ سمجھ جائیں کہ مجھے قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر بن کر قوم کی بے لوث خدمت کرنے کا بہت شوق ہے مگر شوق کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میں گپی کی طرح بے داغ نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ میرے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے جائیں گے۔ میں نے بینکوں کے قرضے ہڑپ کئے ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری املاک اور زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ پیسے کی ہیرا پھیری اور لین دین میں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ میرے پاس کوٹھیاں ہیں، گاڑیاں ہیں، جہاز ہیں۔ یہ سب میرے خلاف منہ بولتا ثبوت ہیں مگر سوال یہ ہے کہ میں گنگلا کیوں ہوں؟ اور میرا ہم پیشہ دوست گپی میری طرح کنگلا کیوں نہیں ہے؟
تازہ ترین