• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انگریزی میں ایک اصطلاح ہے Elephant in the room یعنی کمرے میں موجود وہ ہاتھی جس کو کمرے میں موجود لوگ یا تو دیکھ نہیں رہے یا جان بوجھ کر اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ ہمارے الیکشن کمیشن کے چھوٹے سے کمرے کا بھی یہی حال ہے اس کو پوری کمیشن کی بلڈنگ کے ہر کمرے میں موجود یہ سفید ہاتھی نظر نہیں آرہا مگراب اس ہاتھی کی خبریں اخباروں میں چھپنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ ہاتھی گزری ہوئی حکومت اور اس کی باقیات ہیں جو ایوان صدر میں اور عبوری حکومتوں کی شکل میں ابھی تک پرانے سسٹم کو کنٹرول کر رہی ہیں کسی کو یہ فرق ہی محسوس نہیں ہورہا کہ ایک پانچ سالہ دور چلا گیا ہے اور اصولاً ایک غیر جانبدار حکومت قائم کی گئی ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ اب اگر سندھ کی عبوری حکومت کا اجلاس بلاول ہاؤس میں منعقد کیا جائے تو اور کیا کہیں۔ الیکشن کمیشن تو بے چارہ ایک معذوروں کا کلب ہی ہے جس کے پاس ایک ایسا ترجمان تک نہیں ہے جو آکرTV پر بیان دے تو لوگ سمجھیں کہ واقعی جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ کیا بھی جائے گا یعنی اس کمیشن کے لوگ اتنے سہمے ہوئے اور گھبرائے ہوئے لگتے ہیں کہ بیان دینے سے پہلے ہی بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کوئی اور دبنگ شکل نہیں ملی تو ایک جونیئر سیکرٹری کو ہی لاکھڑا کیا مگر خالی بیانات ہی تک بات ہوتی تو پھر بھی گزارا ہو جاتا یہاں تو ایسے اقدامات لئے جا رہے ہیں کہ کوئی سر پیر ہی نہیں۔ کبھی حکم آتا ہے کوئی تبادلہ اور تقرری نہیں ہوگی اور پھر واپس لے لیا جاتا ہے ۔ کبھی تمام افسروں کو ہٹانے کا حکم دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی افسر ٹھیک کام کر رہا ہے تو ہٹانے کی ضرورت نہیں لہٰذا ایک بھی افسر اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ پھر خبریں آنا شروع ہوتی ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ممبروں میں توُ توُ میں میں ہو گئی اور سندھ کے ممبر ناراض ہو کر کراچی پدہار گئے۔ ایک اخبار نے آخر وہ نظر نہ آنے والے ہاتھی کی خبر بھی چھاپ دی، لکھا کہ افسر شاہی ابھی تک ایوان صدر کے کنٹرول میں ہے اور سارے حکم وہاں سے آرہے ہیں ۔ اچانک خبر آئی کہ ایک خالی خانہ بھی بیلٹ پیپر میں شامل ہوگا پھر پتہ چلا نہیں ہوگا کوئی ذمہ دار نہیں جو بتائے کیا ہو رہا ہے۔
کیا خوب پلان ہے پورے ملک کو اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا کہ کون صحیح مسلمان ہے اور کون اذان دے سکتا ہے یا نہیں۔ جیسے لوگوں کے نمائندے اسمبلی میں باجمات نماز پڑھانے جا رہے ہوں۔ الطاف بھائی نے ٹھیک ہی کہا کہ فخرو بھائی قوم کو یا قوم کی نماز جنازہTV پر پڑھ کر دکھادیں۔ اصلی ہاتھی تو کسی کونے میں چھپ گیا یعنی وہ اربوں کھربوں کی چوری کرنے والے ڈان اور گاڈ فادر کے چیلے چانٹے جن کو اب یہ فکر نہیں کہ الیکشن کون جیتے گا بلکہ فکر یہ ہے کہ کہیں کوئی ان کی لوٹ مار کے بارے میں سوال و جواب نہ شروع کر دے۔ Lowprofile کی یہ حالت ہے کہ 4/اپریل کو بھٹو مرحوم کا یوم وفات بھی بند کمرے میں منایا گیا اور برسوں پرانی رسم کو بھلا کر اپنے خوف کے تلے دبا دیا گیا۔ اب قوم62،63 کی بتی کے پیچھے لگی ہے تو بڑے بڑے ایوان گھبرا رہے ہیں کسی کو ڈر ہے کہ ان کی غیر ملک میں اتاری گئی تصویریں جو انٹرنیٹ پر ہر وقت موجود ہیں، سامنے نہ آ جائیں یا کہیں کوئی ناراض ہو کر مال و دولت کو لوٹنے کی کہانی نہ سنانا شروع کردے۔ حنا کھر تو ریس سے بھاگ ہی گئیں۔ ان تمام حالات میں جو حشر بپا ہوا ہے وہ اشارہ کر رہا ہے کہ فخرو بھائی اور ان کے باقی معذور کلب کے ممبر کسی بھی وقت یہ کہہ کر گھر نہ روانہ ہو جائیں کہ اب ان سے یہ بوجھ نہیں سنبھالا جاتا۔ لگتا ہے اس کی بھنک فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو بھی پہنچ گئی اور سنا ہے اسلام آباد کلب کے ایک کونے میں فخرو بھائی سے طویل ملاقات کی گئی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کہیں وہ پریشان ہو کر بھاگنے والے تو نہیں۔ جہاں چاہئے تو یہ تھا کہ سارے معاملات الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہوتے وہاں کمیشن والے آپس میں لڑ رہے ہیں اور جناب چیف جسٹس تقریروں میں یہ فرما رہے ہیں کہ کمیشن کو ذمہ داری لینی چاہئے ایک آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کی۔ آخر کیوں جنرل کیانی اور افتخار چوہدری صاحب کو یہ یاد دلانے کی ضرورت پیش آئی کہ فخرو بھائی اپنا کام صحیح طریقے سے کریں اور ابھی تو اصلی ہاتھی کی طرف کوئی دیکھ ہی نہیں رہا قوم چھوٹے چھوٹے جمشید دستی اور وقاص شیخ کے چکروں میں الجھی ہوئی ہے۔
مگر یہ سب جوہو رہا ہے وہ سب کو نظر آرہا ہے۔ اب تو لیڈروں نے بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خود الطاف بھائی، پیر پگارا اور اب عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ اس افراتفری میں کوئی کام ٹھیک نہیں ہو سکتا تو کیوں نہ آرام سے پہلے صفائی کی جائے اور پھر انتخاب۔ آخر اگرانہی چوروں، ڈاکوؤں اور ہیرا پھیری کے ماہر، جھوٹ اور فراڈ کرنے والے نمائندوں کو دوبارہ ایوانوں میں لانا ہے تو یہ سارے ڈھونگ رچانے کی ضرورت ہی کیا ہے اور اس خبر پر حیرانگی کی ضرورت نہیں کہISI کے الیکشن سیل کو دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔ایسا تو ہونا ہی تھاکیونکہ ضرورت تو ہے کیونکہ انہی لٹیروں نے ہر ایک کی قیمت لگا کر خرید لیا ہے اور رقم ایڈوانس میں دے دی گئی ہے یا اونچی اونچی کرسیوں پر بٹھا کر منہ بند کر دیئے گئے ہیں۔
یاد ہوگا مہینوں پہلے جناب صدر نے کہا تھا کہ عبوری وزیر اعظم کوئی اخبار نویس بھی ہو سکتا ہے، چلیں وزیراعظم نہ سہی وزیراعلیٰ اور وزیر اطلاعات توبن گئے تو یہ پلان تو ثابت ہو گیا کہ کہاں سے بنا اور کیسے کس کے ذریعے اس پر عمل کیا گیا۔ اب جو میڈیا کے لوگ بڑی کرسیوں پر نہیں پہنچ سکے ان کے گھر کتنے موٹے بریف کیس پہنچائے گئے یا ان کے اخباروں کو یا خود انہیں کیا کیا فائدے دیئے گئے یہ سب تو سامنے آنے والا نہیں لیکن جو کچھ میڈیا والے کر رہے ہیں وہ خود چلّا چلّا کر بول رہا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے اور کیوں۔
اعتزاز احسن سے لیکر عاصمہ جہانگیر تک اور راجہ رینٹل سے امین فہیم تک اور درمیان میں سب چھوٹے اور بڑے کھانے پینے والے جمہوریت کا غم بیچتے ہوئے چوروں اور لیٹروں کی صفائی پیش کرتے جب نظر آئیں تو معاملہ سمجھ میں آجانا چاہئے۔ رحمن ملک کی اچانک لندن روانگی اور راجہ اشرف کی نااہلی اشارے تو فراہم کررہے ہیں۔آخر پنجاب میں کیوں جناب نجم سیٹھی پر دباؤ ہے کہ PPP یا ن لیگ کے چہیتے افسروں کو لگایا جائے۔کیا گل کھلانے ہیں ان لوگوں نے۔ جو ہونا ہے وہ تو طے ہے مگر ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عدلیہ ذمہ دار ہے اور ہم ان کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ تو نتیجہ کیا یہ نکلا کہ انتخاب عدلیہ کروا رہی ہے یا کمیشن ۔ صورتحال یہ ہے کہ کوئی بڑا لیڈر یا مگرمچھ ابھی تک کسی کی گرفت میں نہیں آیا۔ تاریخوں پر تاریخیں گزر رہی ہیں مگر سب پریشان ہیں کوئی کمرے میں موجود ہاتھی کو نہ دیکھنا چاہتا ہے نہ ہی اسے باہر نکالنے کی جرأت کر رہا ہے اور یہ سرکس یوں ہی چلتا رہے گا اور عوام کو پھر یہ کہا جائے گا کہ ووٹ ڈال کر یا کسی چور یا ڈاکو یا کسی ڈان کو دوبارہ حکومت میں لے آؤ۔ بے چارے ہر طرح سے پسے ہوئے عوام اس خوش فہمی میں ووٹ ڈال دیں گے کہ شاید کوئی فرشتہ ان کی مدد کردے۔ اب فرشتوں کی خبریں بھی آنے لگیں مگر اس کمرے کے ہاتھی کو اگر نہ نکالا گیا تو کمرہ ہی نہ پھٹ پڑے یا چھت نہ بیٹھ جائے۔
ادھر جنرل مشرف کا سرکس بھی شروع ہونے کو ہے وہ کیا گل کھلائے گا سب حیران ہیں مگر ایک بات تو صاف ہے فوج مشرف کے دفاع کیلئے نہیں آئے گی اگر خود مشرف نے سارے راز نہ کھولنے شروع کردیئے۔ ایک بلی کو کونے میں لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلئے حملہ کرے سو اب فوجی بھی تیار ہو جائیں کیونکہ ان کے راز کھلیں گے تو تکلیف تو ہوگی۔
تازہ ترین