• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں1930ء کی دہائی کے انتخابات میں کسی پڑھے لکھے سید نوجوان کو اس کے دوست و احباب اسے ووٹروں کے پاس لے گئے اور انہیں اس نوجوان امیدوار کو ووٹ دینے کو کہا تھا۔ اس پر ووٹروں نے سوال کیا تھا کہ وہ آخر اس نوجوان کو کیوں ووٹ دیں؟ تو جواب میں نوجوان امیدوار کے احباب نے کہا تھا کہ ان کو ووٹ دیجئے کیونکہ یہ نوجوان ہیں، پڑھے لکھے ہیں اور انگریزی بھی جانتے ہیں۔ اس پر ووٹروں نے کہا تھا کہ اگر یہ اتنے قابل اور پڑھے لکھے ہیں تو ہمیں ”پھوسڑی“ یعنی پدی پرندے کا انگریزی میں ترجمہ بتائیں۔ وہ پڑھے لکھے نوجوان پھوسڑی یا پدی کا انگریزی میں ترجمہ بتانے میں ناکام ہو گئے تھے۔ پاکستان میں بھی ریٹرننگ افسران امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کے وقت انہیں آئین کے فقروں باسٹھ تریسٹھ کے نام پر پدی والے امتحان سے گزار رہے ہیں۔
اب کے چار اپریل کو بھٹو کی 34ویں برسی آتے آتے یہ عقدہ کھلا کہ وہ جو 4/اپریل1979ء اور 17/اگست1988ء کے بعد پاکستانی سیاست و سماج میں دو بھٹو اور ضیاء کے بھوتوں کے درمیان ہی لڑائی تھی اس میں آخر کار بھٹو کا بھوت ہار گیا ضیاء کا بھوت جیت گیا۔ کم از کم ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات میں کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کے دوران امیدواروں سے سوالات سے تو یہی لگتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے جو یہ نعرہ لگاتے تھے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اب وقت نے بھٹو کی بات غلط ثابت کی کہ آخری قہقہہ کون لگاتا ہے۔ آخری قہقہہ ضیاء الحق نے ہی لگایا۔ امیدواروں سے دعائے قنوت، کلمہ طیبہ ، نمازوں کے فرض، سنتیں و نفل پوچھے جا رہے ہیں بالکل ایسے جیسے اسمبلیوں میں انہیں حقوق العباد کے بجائے نمازوں کی امامتیں اور نکاح پڑھانے ہوں۔ بالکل ایسے جیسے ضیاء کے دنوں میں کبھی کمیشن و مقابلے کے امتحانات میں بھی ڈاکٹروں اور انجینئروں سے غسل جنابت اور وضو کے متعلق سوالات پوچھے جاتے تھے۔
جسٹس منیر جسے آج کل تاریخ میں پاکستان میں جمہوریت کو سرے سے ہی اکھاڑ پھینک دینے کیلئے مولوی تمیزالدین کیس اور نظریہٴ ضرورت کے حوالے سے آج تک معاف نہیں کیا گیا اور وہ آج تک لعن طعن کی پھانسی پر لٹکے ہوئے ہیں لیکن ان کے کریڈٹ میں ایک عظیم الشان کارنامہ یہ کبھی ضرور لکھا جائے گا کہ انہوں نے 1950ء کی دہائی میں ہونے والے مذہبی فسادات پر اپنی رپورٹ میں سفارشات میں اس پر زور دیا تھا کہ اگر اس ملک کی سا لمیت اور بقا برقرار رکھنی ہے تو مذہبی امور کو ریاستی امور سے علیحدہ کرنا پڑے گا لیکن کئی رپورٹوں کی طرح جسٹس منیر رپورٹ کی سفارشات پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا۔ مولوی ، جج اور جرنیل ہی بابائے قوم بن بیٹھے۔ جنرل نے کہا کہ اس کی بندوق اور وردی ہی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے، جج نے کہا کہ اس کا قلم، مولوی نے کہا کہ اس کا لاؤڈ اسپیکر۔ کسی نے سچ کہا کہ اگر ملک کے بانی محمد علی جناح بھی آج ہوتے تو وہ باسٹھ تریسٹھ کی کسوٹی پر شاید ہی پورے اتر سکتے تھے۔ وہ جو اپنی بود و باش، خورد و نوش، نشست و برخاست میں انتہائی سیکولر تھے۔ وہ جو کہ اپنی تخلیق کے پہلے شکار بنے، باقی سب تاریخ ہے۔گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد ان کی پہلی کانفرنس کے دوران سندھ آبزرور کے مدیر مسٹر شرما نے ان سے پوچھا تھا کہ نو آزاد ملک پاکستان سیکولر ہوگا کہ تھیولاجیکل ریاست تو انہوں نے کہا تھا ”میں نہیں جانتا تم کیا بات کر رہے ہو ؟“ یعنی کہ سیکولر ریاست کے علاوہ بھی کوئی اور تصور ہو سکتا ہے؟ جنرل کہ جن کا اس ملک کے حاصل کرنے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ جنرل ضیاء نے کہا کہ ان کا قیام پاکستان میں کردار تھا کہ انہوں نے دہلی میں مسٹر جناح کی طرف سے قائم کئے جانے والے انگریزی اخبار کا پہلا پرچہ تقسیم کیا تھا۔ دہرہ دون میں یہ بانکے کپتان جو کئی بعد میں ملک پاکستان کے سدا سہاگن حکمران بن بیٹھے مارے کورٹ مارشل کے خوف کے میسوں میں اس نئے بننے والے ملک کا نام لینے سے بھاگتے تھے۔ باقی جو سینئر تھے وہ 13/اگست47ء تک یونین جیک کو ہی سیلوٹ مار رہے تھے۔
اپنی ذاتی زندگی و سوچ میں ایک سیکولر ملک کے بانی کی جگہ پر ایک تصوراتی ملک کا یوٹوپیائی بانی، ایک یوٹوپیائی یا تصوراتی مملکت اور اس کے کئی سال بعد اس کا ایک یوٹوپیائی تصوراتی نظریہ بنایا گیا اور پھر اس نظریئے کی نظریاتی سرحدیں بھی گھڑ لی گئیں۔ اب چکوال کے شیکسپیئر اور ملک میں انگریزی کے مایہ ناز کالم نگار ایازامیر اسی تصوراتی نظریئے پر تصوارتی حملے کے الزامات کا شکار ہوئے ہیں کہ اپنی ہی بڑھیا انگریزی لکھنے کی طرز کے! شیکسپیئر کے جملوں سے خود ایازامیر مات کھا گئے یا اس مرے ہوئے سیزر سے جسے ظفر علی شاہ کیس میں جج اس استدلال پر زندہ نہ کر سکے تھے کہ سیزر مر چکا ہے اب وہ سیزر کو زندہ نہیں کرسکتے۔ یعنی چہ جائیکہ وزیراعظم جونیجو کی برطرفی غیر آئینی تھی لیکن وہ انہیں بحال کرنے سے قاصر تھے بعد میں یہ مسٹری بنام اسلم بیگ کیس میں کھلی کہ جونیجو کی عدم بحالی بھی نظریہ پاکستان کے مطابق تھی۔ اب وہ فوجی آمر ضیاء جج جسے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے سیزر کہتے تھے زندہ ہوگیا۔ ایازامیر اصل میں اسی یوٹوپیائی نظریئے کا شکار ہوئے جو شیر خان کے گدھے والے قصے کی یاد دلاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک کا بادشاہ ایک دن محل میں روتا ماتم کرتا آیا کہ شیر خان مرگیا اسے دیکھ کر محل کی ملکہ اور کنیزیں اور دربان بھی سر پیٹنے لگے کہ شیر خان مر گیا۔ ملکہ نے پوچھا کہ شیر خان کون تھا؟ بادشاہ نے فرمایا کہ اسے کیا معلوم بس دربار میں وزیر اعظم سر پیٹتا آیا کہ شیر خان مر گیا۔ جب وزیر اعظم سے پوچھا گیا تو اس نے کہا اسے کیا معلوم شیر خان کون ہے؟ وہ تو معلوم نہیں لیکن میں نے نائب وزیر اعظم کو روتے سر پیٹتے دیکھا تو مجھ سے بھی یہ برداشت نہ ہو سکا۔ نائب وزیر اعظم سے پوچھا گیا تو انہوں نے سائیس اعظم پر ڈال دیا کہ وہ روتے بسورتے توپخانے میں داخل ہوئے تھے۔ جب سائس اعظم پر انکوائری ڈالی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے کیا معلوم میں نے تو شاہی دھوبی کو روتے ہوتے دیکھا تو میں بھی سینہ کوبی کرنے لگا۔ جب آخر میں دھوبی سے پوچھا گیا تو دھوبی نے بین کرتے ہوئے اصل معاملہ بتایا کہ شیرخان نامی اس کا اکلوتا پیارا گدھا تھا۔ یہی حال نظریئے کا ہے جس کی تشریح آج تک کوئی ذی ہوش نہیں کرسکا۔
حقیقت میں یہ نظریہٴ وہ تیغ جفا ہے جو فوجی آمر یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات ریٹائرڈ جنرل شیر علی خان کے دماغ کی اختراع تھی جس کا مقصد آمریت مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ اسی نظرئیے کے تحت سابق مشرقی پاکستان میں1970ء کے انتخابات میں ملک میں جیت کر آنے والا اکثریتی پارٹی کے مینڈیٹ کو بھاری بوٹوں تلے روند کر مشرقی بنگال پر فوجی چڑھائی کئی گئی۔ اسی نظریئے کے تحت پھر ہر روز لائل پور جیل میں شیخ مجیب الرحمن کی آنکھوں کے سامنے ان کی قبر کھو دی جاتی تھی اور پھر اسی نظریئے کے تحت انہیں رہا کر دیا گیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر بقول شخصے پھر انہیں 22توپوں کی سلامی دیکر استقبال کر کے بنگلہ دیش تسلیم کرلیا گیا۔پھر اسی نظریئے کے تحت بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کر کے فوج کشی کی گئی۔ اسی نظریئے کے تحت نیپ جیسی طاقتور اور بڑی حزب مخالف پارٹی پر پابندی ڈال کر ان کے لیڈروں، کارکنوں، حمایتیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اسی نظریئے کے تحت ضیاء الحق نے بھٹو اور اس کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کیا پھر نہ فقط نظریئے پر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بھی بیڑا اٹھایا گیا پھر اسی یوٹوپیائی نظریئے کے یوٹوپیائی دشمن بھی جوڑے گئے اور پھر ان کے خلاف ہر وقت ایک حالت جنگ بھی بپا رکھی گئی پھر بھی بقول شخصے اسلامی دنیا کے طاقتور ایٹمی ملک کے نظریئے کو ایک کالم نگار کے دو کالموں سے خطرہ پیدا ہوگیا کہ آنے والے انتخابات دو کالموں کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ خاموشی کے ٹاور پر کب کا کوّوں، چیلوں، کبوتروں اور گِدھوں کا رزق بن گیا ہوگا۔ سخی بہادر بڈھا پارسی اردشیرکاؤس جی (جس پر ایاز امیر کے تحریر کردہ ایک کالم پر بھی اعتراض ہے) اس نظریئے سے زیادہ تگڑا لگتا ہے! میں سوچ رہا ہوں کاش وہ آج زندہ ہوتا تو کراچی میں قدیم مچھیروں کے جزیروں کو کرامازوف زرداری برادران کی طرف سے سنگاپور بنانے کے میگا منصوبوں پر ضرور پانی پھیرتے نظر آتا کہ اب تو اس کی مخالفت بھی اس نظریئے کے منافی ٹھہری۔
تازہ ترین