• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اعتدال کی راہ، لگتا ہے ہم کھو بیٹھے ہیں یا ہم سے، ہم سب سے روٹھ گئی ہے۔ اعتدال کہیں بھی،کسی جانب بھی موجود نہیں، اگر ہے تو انتہا پسندی ہے۔ اِس طرف والے ہوں یا اُس طرف والے،انتہا پسندانہ موقف اختیار کرنے کا بس بہانہ ملے۔ بھرے بیٹھے ہوتے ہیں،اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے،کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ابھی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہی آیا ہے، امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے، ان کی چھان بین ہوئی، ہو ہی رہی تھی کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ قیامت کا سا لے دے مچنا شروع ہو گئی۔ اِدھر والوں نے اپنی شمشیریں بے نیام کیں، اُدھر والوں نے اپنی تلواریں سونت لیں۔ اس توتکار کا ،اس ساری جنگ وجدل کا شکار وہ ہو رہے ہیں جن کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام اور جمہوریت! بات آئین کی شق 62/اور63 کے اطلاق سے شروع ہوئی اور کہاں کہاں سے ہوتی ہوئی کہاں تک پہنچی۔ ذکر چھڑا تھا قیامت کا، بات تیری جوانی تک پہنچ گئی۔ یہ دونوں شقیںآ ئین میں ابتدا ہی سے تھیں،کون پارلیمان کا رکن ہو سکتا ہے کون نہیں ہو سکتا۔1973ء کے آئین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ متفقہ آئین ہے ۔انتخابات میں اہلیت اور نااہلی کی شرائط بھی متفقہ طور پر اس میں شامل کی گئی تھیں اور بھی بہت سی شقیں ہیں جو اس پارلیمان کے اراکین کی ذہنی اور سیاسی بلوغت، دوسروں کی رائے کے احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ثبوت ہیں۔ جس پارلیمان نے یہ آئین منظور کیا اس میں ہر طبقہ خیال کے لوگ موجود تھے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت تھی، ذوالفقار علی بھٹو کا اپنا ایک فلسفہ تھا، سوشلزم سے قریب، اور بھی لوگ ان کے ساتھ تھے۔ دوسری طرف مفتی محمود تھے، ان کی جمعیت علمائے اسلام ایک خاص مزاج رکھتی تھی جس میں مذہب کا اہم عنصر شامل تھا، جماعت اسلامی بھی اس ساری کارروائی میں شریک رہی ، اپنے دینی رجحانات اور نقطہ نظر کے ساتھ۔ ان سب نے ایک دوسرے کو برداشت کیا اور ایک ایسا آئین قوم کو دیا جو سب کے لئے قابل قبول تھا،متفقہ تھا۔ بعد میں اس متفقہ آئین میں یکطرفہ ترامیم کر دی گئیں۔ جنرل ضیاء الحق نے 62/ اور63 میں بہت سی مزید شرائط شامل کر دیں۔گو اسلامی آئین کی بنیاد کو تو پہلے ہی تسلیم کر لیا گیا تھا،جنرل ضیاء نے پارلیمان کے اراکین کیلئے بعض وہ شرائط شامل بھی کر دیں جو ایک اچھے مسلمان کیلئے ضروری ہیں۔ صادق اور امین ہو، گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی شہرت نہ رکھتا ہو اور بھی بہت کچھ۔ ان شرائط پر مگر کبھی عمل نہیں ہوا، بھٹو صاحب کے دور میں بھی اور اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے 2008ء تک، یہ شرائط آئین کے صفحات تک محدود رہیں، کسی نے انہیں غور سے پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی، عمل تو کیا کرنا تھا۔ فساد کی ایک جڑ یہ بھی ہے کہ اراکین نے اس طرف توجہ نہیں دی، ان پر کوئی بحث مباحثہ نہیں کیا اور اگر ان میں خامیاں تھیں یا ہیں تو انہیں دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جب تک پارلیمان کوئی فیصلہ نہ کر لے، یہ آئین کا حصہ ہیں اور ان شقوں پر عمل ابھی شروع ہوا، پچھلی پارلیمان کے آخری دنوں میں۔ دُہری شہریت کا معاملہ، جعلی ڈگریوں کا معاملہ، قرض نادہندگان کا معاملہ ۔یہ سب شقیں آئین میں موجود رہی ہیں، عمل ان پر کبھی ہوا نہیں۔ اب ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ آئین میں دی گئی ان تمام شرائط پر عمل کرنے اور پابندیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہیں سے شور اٹھنا شروع ہوا، قیامت کا سا۔ اس شور شرابے میں سب ہی اصل بات کو بھول بیٹھے۔ریٹرننگ افسران نے غالباً بے سوچے سمجھے، ایسا رویہ اختیار کیا جسے کم از کم الفاظ میں غیرسنجیدہ کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح کے سوالات امیدواروں سے پوچھے گئے اور جن بنیادوں پر کاغذات مسترد کئے گئے ان کا کوئی تعلق 62/ اور 63 سے نہیں ہے۔ ان دونوں شقوں میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ امیدوار کو نمازِجنازہ پڑھانی آتی ہو یا اسے مردے کو غسل دینا آتا ہو اور بھی جو کچھ پوچھا گیا اس کا کوئی مقصد نہیں تھا، کم از کم یہ مقصد ان سوالوں سے حاصل نہیں ہوتا کہ امیدوار کے بارے میں طے کیا جا سکے کہ وہ صادق اور امین ہے،اسلامی تعلیمات سے کماحقہ واقف ہے اور گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہے۔ ایک مقصد البتہ حاصل ہوا جو بہرحال آئین بنانے والوں کا مطمح نظر نہیں تھا۔ قوم ایک بار پھر بہت بری طرح تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف اُن کی صفیں ہیں جو سیکولرخیالات رکھتے ہیں، دوسری طرف مذہبی رجحانات رکھنے والے ہیں اور دونوں ہی دو انتہاؤں پر ہیں۔ دونوں ہی اپنے اپنے خیالات کی گرد اڑا رہے ہیں، اصل بات اس میں کہیں چھپ گئی۔ آسان تو یہ تھا کہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے غیر ضروری سوالات پوچھنے کا معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے اٹھایا جاتا۔ فخرالدین جی ابراہیم پر سب کو اعتماد ہے وہ ایک انتہائی معقول انسان ہیں، اس مسئلے کا حل وہ بلا تاخیر تلاش کر دیتے، یہ نہیں ہوا۔ ذرائع ابلاغ کے ہاتھ چٹ پٹی خبریں لگیں، فلاں دعائے قنوت نہیں سنا سکا، فلاں کو تیسرا کلمہ یاد نہیں تھا،کسی کو یہ پتہ نہیں کہ آخری گورنر جنرل اور پہلا وزیراعظم کون تھا، فلاں نے نظریہٴ پاکستان کی مخالفت کی تھی، فلاں نے ممنوع مشروب پینے کا اعتراف کیا۔ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ،صبح سے شام تک ٹیلیویژن پر دکھائے جاتے رہے، اخبارات میں چھپتے رہے۔ یار لوگوں کیلئے تفریح طبع کا سامان فراہم ہو گیا۔
اس نے جلتی پہ تیل ڈالا، یوں کشیدگی اور بڑھی،اتنی کہ اسے چھوا جا سکتا ہے۔ جس طبقہ کو نظریہٴ پاکستان کبھی نہیں بھایا اس نے اپنی کلہاڑیوں پہ دھار رکھی، اسے انکار کا ایک اور موقع ہاتھ آیا جو نظریہٴ پاکستان کا حامی ہے اسے ان سوالوں میں کوئی خامی نظر نہیں آئی، وہ اس کے دفاع میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے لگ پڑے۔ اعتدال کا دامن سب نے چھوڑ دیا اور ایسا کرتے ہوئے بہت کچھ بھول گئے مثلاً اس بات پر ہمیشہ سب کا اتفاق رہا ہے کہ وڈیرے اور جاگیردار دھونس دھاندلی سے ووٹ حاصل کرتے ہیں، اپنے مزارعوں کو اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنے دیتے یا یہ کہ جب تک وڈیرے اور جاگیردار باقی رہیں گے جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔ وہ اپنے علاقے کے مکینوں کے نمائندہ نہیں ہیں۔ 62/ اور63 کی مخالفت کرتے ہوئے اب فرمان یہ ہے کہ عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ کون ان کی نمائندگی کا حق رکھتا ہے، وہ کس پر اعتماد کریں، خواہ وہ وہی وڈیرہ ہو جو عشروں سے اس کا استحصال کرتا آیا ہو۔ تو وہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے خاتمے کی جدوجہد کا کیا ہوا؟مذہب کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے بنیادی موقف کو بھی لوگوں نے فراموش کر دیا ۔ اب یہ سارے قول و فعل نقش و نگار طاقِ نسیاں ہو گئے۔ اسی طرح مذہب کے حامی عناصر نے بھی ریٹرننگ افسروں کے غیر ضروری سوالات کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ ان کے خیال میں صرف اچھا مسلمان ہو سکتا ہے،عام مسلمان نہیں۔ وہ بھی ایک سے ایک دلیل لاتے ہیں، ایسی دلیل جس کا کوئی حوالہ آئین میں نہیں۔ اُن کا موقف بھی انتہاپسندانہ ہے اور اِن کا بھی۔ اور یہ عکس ہے ہمارے معاشرے کا ،اس معاشرے کا جو 1973ء میں ہم خیال اور برداشت کا مظہر تھا۔ متفقہ آئین، اس کے نمائندے بنا پائے تھے اب یہ تقسیم ہو گیا ہے، خطرناک حد تک۔ افسوس یہ کہ عقل و خرد ان دانشوروں سے دور چلی گئی ہے۔ وہ جو رہنمائی کر سکتے تھے اپنے گروہ، اپنی ذات تک محدود ہو گئے ہیں۔ صرف ان کے خیالات درست ہیں، صرف ان کے نظریات صحیح ہیں، یہ ان سب کا گمان ہے جو قوم کو متحد کر سکتے تھے، خود منتشر ہو گئے ہیں۔ اک ذرا چھیڑئیے تو برداشت، تحمل، بردباری، کے انجیر کا پتہ بھی الگ ہو جاتا ہے ۔کوئی تو، کبھی تو ٹھنڈے دل سے سوچے، محبت بڑھائے، یگانگی پیدا کرے،کوئی تو۔
تازہ ترین