• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابراہیم مغل ایک درد مند پاکستانی ہیں جو روزانہ معلوماتی و فکری نوعیت کے ایس ایم ایس تخلیق کر کے ہزاروں افراد کو فارورڈ کرتے ہیں انہوں نے چند روز قبل جو ٹیکسٹ میسج بھیجا اس کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں پارلیمینٹ کے قیام کا سہرا ٹیپو سلطان کے سر جاتا ہے جس نے زمرغم نباشد کے نام سے پہلی پارلیمینٹ کی بنیاد رکھی تاکہ عوامی نمائندگی کے خواب کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا اور کابینہ کے ہر وزیر کی ماتحتی میں ایک بورڈ بنایا گیا جو تمام ریاستی و انتظامی امور بطریق احسن چلانے کا بندوبست کرتا بدقسمتی سے ٹیپو سلطان کو پہلے وزیراعظم کے طور پر میر صادق جیسا غدار اعظم مل گیا یوں یہ نظام نہ چل سکا مگر جب برطانوی سامراج نے یہاں تسلط جمایا تو سول سرونٹس کے نام سے افسر شاہی کے ایسے بابو تخلیق کئے گئے جو مقامی افراد کو دکھائی نہ دینے والی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ سکیں۔ اس حوالے سے مزید تفصیل محمود بنگلوری کی تصنیف صحیفہ ٹیپو سلطان سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ جب نظام بدلنے کی بات ہوتی ہے تو لوگ سیاستدانوں کی طرف دیکھتے ہیں، کبھی فوج کو بحران سے نکالنے کی دعوت دی جاتی ہے اور چیف جسٹس کی بحالی کے بعد عوام عدلیہ کو مسیحا سمجھنے لگے ہیں، چونکہ ہم مرض کی تشخیص نہیں کر پائے اور متعلقہ معالج سے رجوع کرنے کی نوبت نہیں آئی اس لئے دوا کرنے کے باوجود بیماری بڑھتی جا رہی ہے ہم تمام کامیابیوں کا کریڈٹ بھی حکمرانوں کو دیتے ہیں اور ناکامیوں کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ بیچارے تو کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈور بیورو کریسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اب تک ہماری تباہی و بربادی کے ذمہ دار یہ بابو ہیں اور مستقبل میں کبھی کوئی تبدیلی آئی تو ان کی منشاء و مرضی سے ہی ایسا ممکن ہو پائے گا۔ آپ پولیس کا نظام دیکھ لیں، تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا دعویٰ کرنے والے حکمران خود وقت کے سانچوں میں ڈھل گئے مگر پولیس کا قبلہ درست نہیں کر پائے مگر اسی نظام سے ایک فرض شناس پولیس افسر ذوالفقارچیمہ نے جنم لیا تو سیاسی مداخلت اس کا راستہ روک پائی نہ وسائل کی کمی آڑے آئی اور اس نے ثابت کر دیا کہ کوئی ڈی پی او چاہے تو اپنے ضلع کا مقدر بدل سکتا ہے، لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص کے اندر ایک قانون شکن اور باغی انسان ہمیشہ موجود رہتا ہے جسے قانون کی بالادستی ہی لگا م دے سکتی ہے۔ مجھے اس بات کا احساس تو تھا مگر گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک عملی تجربے نے ایمان کی حد تک یقین کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں لاہور کے ایک مصروف تجارتی مرکز سے لیپ ٹاپ خریدنے گیا تو گاڑی سڑک کنارے کھڑی کر دی، میرے پاس اپنے دفاع میں سیکڑوں دلائل، ان گنت توجیہات اور بیشمار وضاحتیں موجود ہیں مثلاً پارکنگ کا مناسب بندوبست نہیں تو سڑک پر گاڑی کھڑی کرنے کے سوا کیا چارہ ہے، روزانہ لاہور کی سڑکوں پر کھڑی کی جا رہی گاڑیوں کا چالان ہونے لگے تو ٹریفک پولیس کے پاس رسیدیں جاری کرنے والی کتابیں کم پڑ جائیں۔ ایوان عدل کے باہر وکلاء ڈنکے کی چوٹ پر گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں اور کوئی مائی کا لال ان کا چالان کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا…لیکن سڑک کنارے گاڑی پارک کرنا بہرحال ناجائز پارکنگ کے زمرے میں آتا ہے اور ٹریفک وارڈنز کا فرض بنتا ہے کہ قانون شکنی کرنے والوں کا چالان کریں لہٰذا جب میں واپس آیا تو ایک فرض شناس ٹریفک وارڈن کو اپنا منتظر پایا، میں نے اسے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی، آخری حربے کے طور پر میں نے اپنے تعلقات بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا اور چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن (ر)سہیل چوہدری کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا انہوں نے کہا، میری بات کرائیں متعلقہ وارڈن سے مگر یہ دیکھ کر مجھے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ اس وارڈن نے سی ٹی او کی آواز سننے اور پہچاننے کے باوجود یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ دوران ڈیوٹی مجھے فون سننے کی اجازت نہیں چاہے وزیر اعلیٰ ہی لائن پر کیوں نہ ہوں۔کیپٹن صاحب نے بھی معذرت خواہانہ انداز میں کہا، اب وہ بات ہی نہیں کر رہا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ قصہ مختصر چالان ہو گیا اور مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ محض وارڈن کی فرض شناسی اور بہادری کار فرما نہیں تھی بلکہ سی ٹی او صاحب کا طریقہ ہی یہی ہے۔ انہوں نے تمام وارڈنوں کو پہلے دن سے یہ احکامات دے رکھے ہیں کہ جس نے فون سننے کے لئے موبائل فون ہاتھ میں پکڑ لیا اسے معافی نہیں ملے گی لہٰذا جب مجھ ایسے لوگ اپنے اندر کے قانون شکن انسان کے کہنے پر سفارش کرانے اور اثر انداز ہونے کیلئے ٹیلی فون کرتے ہیں تو کیپٹن (ر)سہیل چوہدری یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں یوں سانپ بھی مرجاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔ مجھے اپنے چالان پر کوئی قلق نہیں بلکہ سی ٹی او کی فہم و فراست پر داد دینے کو جی چاہتا ہے ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی ایسی ہی” وارداتوں “سے قائم ہو سکتی ہے اگر پولیس سفارش کلچر کو اپنی نااہلی کے عذر کے طور پر پیش کرنے کے بجائے یہی طریقہ اپنالے تو کوئی ایم این اے کوئی ایم پی اے، کوئی صحافی ، کوئی وکیل،کوئی سرکاری افسر ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ایک فرد نظام نہیں بدل سکتا تو پہلی فرصت میں ٹکٹ لیکر ملتان چلے جائیں یا فیصل آباد گھوم آئیں ، ان دونوں شہروں میں گھنٹہ گھر چوک بہت مشہور ہیں ان چوراہوں میں کھڑے ہو کر کسی سے سوال کر لیں کہ نسیم صادق کون ہے اور کس قماش کا انسان ہے، آپ کو یقین آجائے گا کہ محض ایک انسان بشرطیکہ صحیح معنوں میں انسان ”یعنی بندے کا پتر “ ہو اور بیورو کریٹ ہو تو اس نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ سکتا ہے۔ نسیم صادق پی سی ایس آفیسر ہیں جب ڈی سی او فیصل آباد کی حیثیت سے ان کا ملتان تبادلہ ہوا تو فیصل آبادیوں نے کئی ماہ احتجاجی کیمپ لگائے رکھا کہ ہمارا ڈی سی او واپس کرو اور اب مظفر گڑھ، لیہ، ڈی جی خان ، لودھراں ، بہاولپور میں لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تین مہینے کیلئے سہی لیکن ایک مرتبہ یہ ڈی سی او ہمیں دے دو۔ ملتان کے بارے میں شیخ سعدی نے ایک شعر کہا تھا
چہار چیز است تحفہٴ ملتان
گرد ، گرما، گدا ،گورستان
گرمی تو عطیہ خداوندی ہے مگر باقی تینوں خوبیاں اب ملتان میں ڈھونڈنے کو نہیں ملتیں۔ صفائی کا معیار لاہور سے بھی بہتر ہے کیونکہ نسیم صادق نے وہاں جاتے ہی سرکاری افسروں کے گھروں پر کام کرنے والے بلدیہ کے اہلکاروں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ آپ جس جس کے گھر کام کر رہے ہیں ان سے لکھوا کر لائیں۔ جب کسی سرکاری افسر نے تحریری ثبوت نہ دیا تو سب خاکروبوں اور دیگر ملازمین کو سرکاری ڈیوٹی پر واپس آنے کا حکم دے دیا گیا۔ یہ شخص روز علیٰ الصباح اٹھتا ہے اور سائیکل پر یا پیدل چلتے ہوئے شہر بھر میں صفائی کا جائزہ لیتا ہے۔ فاطمہ جناح ویمن اسپتال، جنوبی پنجاب کا اکلوتا اسپتال ہے جو خواتین کے لئے مختص ہے جب اسے فعال بنانے کا مرحلہ آیا تو پتہ چلا مسلم لیگ ن کے ایک ایم این اے طارق رشید نے اس اسپتال میں دفتر بنا رکھا ہے، ڈی سی او نے خود کھڑے ہو کر یہ جگہ واگزار کرائی اور اب آؤٹ ڈور کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ اب عوام اس قدر خوش ہیں کہ جہاں تجاوزات کیخلاف آپریشن ہوتا ہے لوگ کسی لاٹھی چارج یا پولیس فورس کے بغیر خود اربوں روپے کی املاک چھوڑ دیتے ہیں جب میں نسیم صادق ، ذوالفقارچیمہ اور کیپٹن سہیل چوہدری جیسی مثالیں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا ہمارے معاشرے میں ایماندار لوگوں کا اس قدر قحط ہے کہ چند سو سر پھرے بیوروکریٹ نہیں ڈھونڈے جا سکتے؟
اگر نسیم صادق جیسے36 سر پھرے تلاش کر کے پنجاب کے تمام اضلاع میں ڈی سی او لگا دیئے جائیں، ذوالفقار چیمہ جیسے36 فرض شناس پولیس افسر ڈھونڈ کر ڈی پی او بنا دیئے جائیں اور سہیل چوہدری جیسے سمجھدار36 افسر ڈھونڈ کر بطور ٹریفک افسر تعینات کر دیئے جائیں تو پورے پنجاب کی تقدیر بدل جائے اور پھر دیگر صوبے اسی نہج پر چلتے ہوئے اپنی حالت سنوار لیں۔ ایسے ”سر پھرے“ بیورو کریٹس کی کوئی کمی نہیں بس کوئی جوہری چاہئے جو کھرے کھوٹے کی پہچان کر سکے۔
تازہ ترین