• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ارد گرد ہمارے احباب، ہمارے قریبی عزیز اللہ کو پیارے ہورہے ہیں۔ انسانیت کی بقا، ملکی سا لمیت کی جنگ اسپتالوں میں لڑی جارہی ہے۔ گھروں کے الگ کمروں میں جاری ہے۔ سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔ اپنے پیارے بے بسی محسوس کررہے ہیں۔ تابوت لحدوں میں اتارے جارہے ہیں۔ موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ کبھی اسکرین روشن ہوتی ہے۔ فلاں بھی چلا گیا۔ فارسی شعر یاد آتا ہے:

خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر

زاں پیشتر کہ بانگ بر آیید فلاں نماند

اے فلاں! نیکی کر اور زندگی کو غنیمت جان، اس سے پہلے کہ آواز آئے فلاں اب نہیں رہا۔

ایک خوش گفتار۔ خوش چہرہ۔ مدلّل بحث کے ماہر دوست محمد فیضی اچانک چلے گئے۔ کتنے احباب کی آنکھیں نم ہیں۔ وہ تو محفلوں کی جان تھے۔ ہر موضوع پر دل میں اترنے والی گفتگو کرتے تھے۔ کوئی اپنی رفیقۂ حیات کی جدائی کی خبر دے رہا ہے۔ کوئی بھائی کی کوئی بیٹے کی۔ اور حالت جنگ کیا ہوتی ہے۔

حالت جنگ کے کیا تقاضے ہوتے ہیں۔ کورونا انسانی زندگی، انسانی تہذیب کا دشمن ہے۔ دائیں بائیں۔ امیر غریب مشرق مغرب شمال جنوب اس کے ناوک نے کسی صید کو نہیں چھوڑا۔ دنیا کی واحد سپر طاقت کیسے تکلیف دہ مرحلوں سے گزر رہی ہے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں۔ پنٹاگون ناچار ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بے بس ہے۔ ادھر ہمارے پڑوس میں سب سے بڑی جمہوریت کے دعویداروں میں بھی بیماروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ جو ٹرمپ اور مودی کی طرح کے ضدی حکمراں ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بیلٹ بکس میں ان کو ووٹ ملتے ہیں، عقل نہیں۔ ان کی ضد پوری قوم کو مجموعۂ اضداد بنادیتی ہے۔ کورونا کو کھل کھیلنے کا پورا موقع ملتا ہے۔ جہاں ذہین متین عجز و انکسار والے حاکم ہوتے ہیں وہاں رفتہ رفتہ حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ کاروبارِ زندگی بحال ہورہا ہے۔ اسکولوں میں یونیفارموں کے رنگ اور بچوں کی مسکراہٹیں پھر بکھرنے لگی ہیں۔ کورونا کا خوف ہوا ہوگیا ہے۔

ہم مملکت خداداد اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے شہری خطرناک مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ اسد عمر نے ممکنہ متاثرین کی تعداد ایک ملین تک پہنچنے کی گھنٹی بجادی ہے۔ مگر ہمارے ہاں تاریخ نے کبھی بھی کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا ملین مارچ نہیں ہونے دیا۔ ان شاء اللہ کورونا کا بھی نہیں ہوگا۔

لیکن حالتِ جنگ طاری ہے۔ ہمیں اس کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے۔ حکمتِ عملی مرتب کرنی ہے۔ بے یقینی ختم کرنے کے لیے میں نے تجویز پیش کی تھی کہ 14اگست جو ہماری انگریز اور ہندو غلبے سے آزادی کا دن ہے۔ ہم اسے کورونا جیسی خطرناک وبا سے بھی آزادی کا دن بنانے کا عزم کریں۔ بہت وقت ہے۔ ایک ایک دن سنجیدگی سے مقابلہ کریں۔ ہم سب 22کروڑ اس جنگ کے سپاہی ہیں۔ ماسک ہمارا یونیفارم ہے۔ سینی ٹائزر ہمارا ہتھیار اور سماجی فاصلہ ہماری لام بندی۔ اب تو ہمارے سامنے بہت سے ملکوں کے جنگی نقشے ہیں۔ اپنے عظیم دوست چین کا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، ملائیشیا، جاپان، ویتنام، انڈونیشیا، سعودی عرب۔ ان میںمسلم ملک بھی ہیں۔ ان میں خواتین کی قیادت والی ریاستیں بھی ہیں۔ سب نے ایک دوسرے سے سیکھ کر اپنے لوگوں کو اس وبا سے محفوظ کیا ہے۔

ہمارے ہاں بھی ایسے ادارے ہیں جو خاموشی سے اپنے آئینی، ریاستی اور شعبہ جاتی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مجھے وفاقی محتسب کی سالانہ رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔چند روز پہلے۔ جی خوش ہوگیا کہ سینکڑوں مصیبت زدگان کو کوئی پیسے خرچ کیے بغیر گھر بیٹے انصاف مل رہا ہے۔ یہاں اچھا کام ہورہا ہے۔ اس لیے شاید میڈیا اسے قابل ذکر نہیں سمجھتا۔

میں تو بار بار زور دیتا ہوں کہ ایسے بحرانوں میں کسی ایک شخصیت کو مسیحا جاننا۔ یا اسے ملک کے لیے آخری امید قرار دینا۔ معروضی سوچ نہیں ہوتی۔ ادارے طاقتور ہوتے ہیں، شخصیتیں آنی جانی۔ ایسی بہت سی آخری امیدیں اب رزق خاک ہوچکی ہیں۔ مگر پاکستان قائم دائم ہے۔ ہم مشورہ دے رہے تھے کہ 2ہفتے کا سخت لاک ڈائون ایک بار پھر کریں۔ جہاں بیماری کی شدت ہو۔ وہاں تو کرفیو لگانا مناسب ہوگا۔ لاک ڈائون میں تذبذب اور عید الفطر پر خریداری کی اجازت دینے کا نتیجہ اب ہمارے سامنے آرہا ہے۔ روزانہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اموات بھی 100سے زیادہ ہونے لگی ہیں۔ اس صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہم میں سے ہر ایک ’حا لت جنگ‘ کے اصولوں کی پابندی کرے۔

یہ بیماری بہت ہی اذیت ناک ہے۔ اللہ ہر کسی کو اس سے محفوظ کرے۔ کوئی اپنا جب اس میں مبتلا ہوتا ہے تو آپ کو زیادہ ادراک ہوتا ہے۔ اپنے ایک قریبی عزیز کے لیے آکسیجن سلنڈر ڈھونڈنا پڑا تو ہمیں احساس ہوا کہ کس قدر کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔

زمانہ انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ آن لائن سماج کا ہے۔ کاروبار بھی اپنے اپنے گھر بیٹھے۔ تعلیم بھی آن لائن۔ اسی میں ایک اصطلاح ہے Crowd Sourcing۔ جسے اُردو میں آپ اجتماعی دانش کہہ سکتے ہیں۔ ’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو۔‘‘ ہر ایک کے ذہن میں بہت سے نئے خیالات جنم لے رہے ہیں۔ حالتِ جنگ میں کیا وزیراعظم یونیورسٹیوں، دینی مدارس، تحقیقی اداروں، میڈیا کے سربراہوں، سائنسدانوں، ڈاکٹروں سے اپیل نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے بارے میں تجاویز دیں کہ کورونا سے نجات کیسے ہو۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں تو ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہمارا کلچر بن چکا ہے۔ وزیر اعظم اراکین اسمبلی سے الگ سے تجاویز مانگیں۔ یقیناً وہ سنجیدگی سے مشورے دیں گے۔ خواتین حکمرانوں نے بہت اچھی انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ دنیا بھر میں تعریف ہورہی ہے۔ پاکستان میں سرگرم خواتین سے بھی مشورہ کیوں نہ کیا جائے۔ 14اگست کو ممکنہ یوم نجات ہدف رکھتے ہوئے آئیے ہم سب یہ جنگ جیتنے کے لیے اپنے اپنے محاذ پر ڈٹ جائیں۔

تازہ ترین