• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوتا یوں ہے کہ ساری دنیا کو تنقید کا نشانہ بنانے اور کل عالم پر فتح پانے کیلئے ہم ہر دم تیار رہتے ہیں لیکن ہم سے کبھی یہ نہیں ہو پاتا کہ اپنی جانب بھی نگاہ ڈال لیں، کبھی اپنی طرف بھی دیکھ لیں، اپنا سامنا بھی کرلیں، اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ دوسروں کے گریبان میں جھانکنا ہی ایک شوق یا مشن نہیں ہونا چاہئے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے کہیں اُردو کے مایہ ناز ادیب راجندر سنگھ بیدی کے بارے میں پڑھا تھا کہ اس نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انسان کی ساری اوقات ظاہر ہو جاتی ہے جہاں وہ اپنا سامنا کرتا ہے‘‘۔ خواہ ہم انفرادی سطح پر ہوں یا گروہ کی صورت میں، قوم و ملت کی شکل میں ہوں یا کسی ادارے کی حیثیت سے اپنے خلاف تنقید سن کر بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایذرا پونڈ معروف امریکی شاعر اور تنقید نگار تھا۔ 1972ء میں اُس کا انتقال ہوا۔ رابندر ناتھ ٹیگور سے اس کی پہلی ملاقات 30جون 1912ء کو لندن میں ہوئی۔ وہ ٹیگور کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوا۔ ٹیگور کی نظم گیتا انجلی کا انگریزی ترجمہ چھپا تو ایذرا پونڈ نے لکھا کہ ٹیگور کے کلام میں وہ عظمت پائی جاتی ہے جو دانتے کی خصوصیت ہے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ وہ ہم میں سے کسی بھی شخص کے مقابلہ میں زیادہ عظیم ہے۔ ایذرا پونڈ نے ٹیگور کی بابت یہ الفاظ مارچ 1913ء میں ایک امریکی رسالہ ’’فارن ریویو‘‘ میں لکھے تھے، صرف ایک ماہ بعد یعنی اپریل 1913ء کو اس نے رسالہ پوئٹری (Poetry) کے ایڈیٹر کے نام ایک خط لکھا جس میں ٹیگور کو فضول قرار دیا اور کہا کہ اس کے کلام میں صرف بعض پرانی باتوں کی تکرار ہے اور اصل بنگالی زبان میں جو ادبی چاشنی تھی وہ بھی انگریزی ترجمہ میں ختم ہوگئی ہے۔ ٹیگور کے بارے میں ایذرا کی رائے میں یہ تبدیلی کیسے آئی۔ وجہ یہ تھی کہ ایذرانے بھارتی ادیب و شاعر کالی موہن گوش کی مدد سے کبیر کی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا۔ یہ ترجمہ کتابی صورت سے پہلے میگزین میں قسط وار چھپا۔ ٹیگور نے اس ترجمہ کو دیکھا تو وہ اس کو بہت ناقص معلوم ہوا۔ اس نے ترجمہ کے ادبی معیار پر سخت تنقید کی اس تنقیدکو پڑھ کر ایذرا بگڑ گیا اور وہی ٹیگور جس کی بابت وہ اس سے پہلے غیر معمولی تعریفی کلمات کہہ چکا تھا اس کی ہجوکرنے لگا۔

بیشتر انسانوں کے لئے سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ان کی اپنی ذات پر تنقید ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر انسانوں کے لئے پرستش کا مرکز ان کی اپنی ذات ہوتی ہے اور آدمی کی فطرت ہے کہ وہ اپنی پرستش کے مرکز پر تنقید کبھی گوارا نہیں کرتا۔ اکثر لوگ دوسروں کی لیاقت کا اعتراف نہیں کرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دوسروں کی اہمیت کا اعتراف کرنے سے اپنی حیثیت گھٹ جائے گی۔ دوسروں کا اعتراف کرنے کیلئے اپنے کو چھوٹا کرنا پڑتا ہے اور کون ہے جوا پنے کو چھوٹا کرنے کی قیمت پر دوسرے کی حیثیت کا اعتراف کرے؟

صرف دو قسم کے لوگ ہیں جو اپنے کو ’’چھوٹا‘‘ کرنے پر راضی ہوتے ہیں یا تو وہ لوگ جو اتنے اونچے ہوں کہ کسی کی بڑائی کا اعتراف کرنے سے انہیں یہ ڈر نہ ہو کہ ان کی شخصیت میں کمی آجائے گی۔ دوسرے وہ لوگ اس کی ہمت کرتے ہیں جنہیں احساس کمتری نے پہلے ہی اتنا چھوٹا بنا رکھا ہو کہ اب دنیا کی کسی چیز سے انہیں مزید چھوٹا ہونے کا خطرہ نہ رہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے جو عام حالات میں شرافت اور مقبولیت کا ثبوت دیں گے لیکن اگر ان کے خلاف کوئی قابل شکایت بات ہو جائے تو وہ فوراً بدل جائیں گے ان سے شرافت اور مقبولیت کا تحفہ صرف اس شخص کو مل سکتا ہے جو ان کی ’’انا‘‘ کو خوش کررہا ہو۔ جو ان کی اپنی لڑائی کے تانے بانے کو منتشر نہ کرے مگر جس شخص سے انہیں کسی قسم کی ٹھیس پہنچ جائے اس کے لئے وہ مکمل طور پر غیر شریف اور غیر معقول انسان بن جاتے ہیں۔ اور جو آدمی کسی کی تعریف کرتا ہے تو اکثر حالات میں وہ خود اپنی تعریف کی ایک صورت ہوتی ہے۔ ایک لیڈر جب اسٹیج پر ہوتا ہے اور جلسہ گاہ میں بھرے ہوئے عوام کے سامنے فیاضانہ الفاظ کا تحفہ پیش کرتا ہے تو دراصل وہ عوام کو ان کے اس عطیہ کا بدلہ دے رہا ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تقریری تھیٹر میں جمع ہوکر اس کی شان میں اضافہ کیا۔ ایک صاحبِ قلم جب دوسرے صاحبِ قلم کےتذکرہ میں الفاظ کے پھول کھلاتا ہے تو وہ یا تو بالواسطہ طور پر اس کے کسی سابقہ قصیدہ کا شکرانہ ادا کررہا ہوتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ تم بھی اسی طرح میرا قصیدہ شائع کرنا۔ ایک تعریف اس لئے بھی شائع کی جاتی ہے کہ کسی سابقہ تنقید کی وجہ سے اپنی بگڑی ہوئی تصویر کو متوازن کیا جائے۔ حقیقی تعریفی کلمات دراصل وہ نہیں جو کسی بھی عظیم شخص کی خیرخواہی کے جذبے کے تحت نکلے ہوں مگر یہی چیز دنیا میں سب زیادہ کمیاب ہے۔ کسی کو حقیقی خیرخواہی کا ایک کلمہ کہہ دینا اتنی بڑی فیاضی ہے جو شاذونادر ہی کسی خوش نصیب کے حصہ میں آتی ہے ورنہ یہاں ہر آدمی جھوٹے الفاظ کی ایک ڈکشنری لئے ہوئے ہے صرف اس لئے کہ جھوٹے الفاظ کی ڈکشنری دنیا کے بازار میں سب سے زیادہ دھوم کے ساتھ بکتی ہے۔ کاش لوگوں کو یہ معلوم ہوتا کہ اس دنیا میں سب سے قیمتی سودا وہ ہے جو کہنے سے رہ گیا ہو؎

چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دل داری کا

عاشقی دین نہیں ہے کہ مکمل ہو جائے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین