• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میںآ ج کل اسلام آباد میں مظہر برلاس کا مہمان ہوں۔گذشتہ رات میں کچھ جلدی سونے چلا گیا تھا۔رات کوئی گیارہ بجے مجھے عمار برلاس نے آکر جگایا کہ میانوالی سے کوئی شخصیت تشریف لائی ہے اور ملاقات کی خواہش مند ہے۔میانوالی کا نام سنتے ہی میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔آخر علاقائی تعصب بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو ایک اجنبی سے نوجوان کا چہرہ دکھائی دیا ۔مظہر برلاس نے تعارف کرایا کہ یہ خالد اعوان ہیں ۔میانوالی این اے 72 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔علیک سلیک ہوئی۔ ڈاکخانے ملائے گئے اور میں نے اسے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی تک ایک آدھ بار چھوڑ کے اس نشست کا ووٹ ہمیشہ پیپلز پارٹی میں حصہ میں آیا ہے۔مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ڈاکٹر شیر افگن اس نشست سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے مگر جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ وہ جیت گئے تو انہوں نے فوراً محترمہ بے نظیر بھٹو کو فون کیااس وقت تک پیپلز پارٹی70 نشستیں جیت چکی تھی ڈاکٹر شیر افگن نے محترمہ سے کہااپنی نشستیں 71 کر لیجئے میں الیکشن جیت گیا ہوں ۔
میری بات سن کر مظہر برلاس نے کہا”مگر اس مرتبہ صورت احوال خاصی مختلف ہے۔ خالد اعوان کہنے لگے۔ ”مظہر بھائی صورت حال درست ہوسکتی ہے اگر پارٹی فنڈ مل جائے۔“ میں نے پوچھا ”ارٹی فنڈ کیسے مل سکتا ہے تو خالداعوان نے کہا ”میں اسی لئے مظہر بھائی کے پاس آیا ہوں۔ الیکشن کیلئے پارٹی سے فنڈ دلوادیں اگور آپ کوشش کریں تو مجھے کل ہی فنڈ مل سکتا ہے میں نے مظہر برلاس کی طرف دیکھا تو اس نے فوراً کہا ”میں اس سلسلے میں پہلے خالد بھائی سے معذرت کرچکاہوں۔یہ کام میرے بس سے باہر ہے “خالد صاحب نے کہا ”مظہر بھائی آپ ایک کوشش کردیں“مگر مظہر برلاس کے مسلسل انکارپر خالد اعوان ان کی طرف سے مایوس ہو کر میری طرف متوجہ ہوگئے کہ بلاول بھٹو وہیں رہتے ہیں جہاں آپ رہتے ہیں آپ ان کی وساطت سے یہ کام کرا دیں۔میں نے جان چھڑانے کیلئے کہہ دیا کہ اچھا میں کسی سے بات کرتا ہوں۔بلکہ میں نے کسی سے بات کی بھی آگے سے مجھے کہا گیا کہ پیپلز پارٹی امیدواروں کو پیسے دیتی نہیں ہے ان سے لیتی ہے ۔
دوسرے دن خالد اعوان کا اسی سلسلے میں مجھے فون آیا کہ تو میں نے اسی وقت انہیں اپنے پاس بلا لیاکافی دیر ان سے کھلی کھلی گفتگو ہوئی ۔پتہ چلا کہ خالد اعوان کو دوکروڑروپے پارٹی فنڈ مل سکتا ہے اگر اس میں سے ایک کروڑ فنڈ دلوانے والے کو دے دئیے جائیں اوربھی بہت سی باتیں ہوئی خالد اعوان نے اپنے ماضی کا احوال بتاتے ہوئے کہا ۔میں نے پانچ سال قمر زمان کائرہ کے ساتھ گزارے ہیں “میں نے فوراً کہا کہ اس کی قربانی بھی بہت بڑی ہے ۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس کا بھائی توقیر کائرہ بھی شہید ہوا تھا “تو خالد اعوان نے انکشاف یہ کیا کہ توقیر کائرہ قمر الزمان کا بھائی تو کجا رشتہ دار بھی نہیں تھا صرف اتنا تعلق ہے کہ وہ بھی اپنے نام کے ساتھ کائرہ لکھتا تھاجس طرح میرا نام خالد اعوان ہے اور سابق وزیر قانون کا نام بابر اعوان ہے اب اگر میں کہنا شروع کردوں کہ وہ بڑے بھائی ہیں تو جنہیں معلوم نہیں وہ یہی سمجھیں گے کہ واقعی یہ آپس میں بھائی ہیں ۔“ میں نے پریشان ہو کر خالد اعوان سے کہا ” میں یہ بات نہیں مان سکتا یہ میں نے خود صد رآصف علی زرداری کے منہ سے سنی ہے ۔“خالد نے ہنس کر کہاانہیں کہیں تین سال کے بعد معلوم ہوا کہ قمر الزمان کائرہ صرف توقیر کائرہ کا نام کیش کراتا رہا ہے تو وہ بھی بہت حیران اور پریشان ہوئے تھے مگر اس وقت تک قمر الزمان کائرہ اپنی گرفت خاصی مضبوط کر چکا تھا۔مگر پھر زرداری صاحب نے منسٹریاں واپس لے لی تھیں ۔“میں نے کہا”اس وقت جو تنویر اشرف کائرہ پیپلز پارٹی کا جنرل سیکرٹری ہیں ۔یہ قمرالزمان کائرہ کا بھائی نہیں۔خالد نے کہا ”تنویر اشرف کائرہ توقیر کائرہ کا چچا زاد بھائی ہے اورتنویر ،اشرف کائرہ کا بیٹا ہے جب کہ قمرزمان کائرہ زمان کائرہ کا بیٹا ہے ۔اشرف کائرہ اور زمان کائرہ کی آپس میں کوئی دور کی رشتہ داری بھی نہیں تھی ۔یہ آپس میں کیسے بھائی ہو سکتے ہیں۔یہ توقیر کائرہ کا نام استعمال کرکے قمرزمان کائرہ پیپلز پارٹی کا لیڈر بن گیا ہے وگرنہ قمرزمان کائرہ کو بے نظیر بھٹوجانتی بھی نہیں تھی ان کی زندگی میں قمر زمان کائرہ سے دو یا ملاقاتیں ہوئی ہیں۔اس کا محترمہ سے کوئی اپنا تعلق نہیں تھا۔وہ ملاقاتیں بھی بالکل ایسی تھیں جیسے آپ مجھے فریال تالپور سے ملائیں اور خدانخواستہ چار دنوں کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہو جائیں تو میرا ان سے کیا تعلق ہوا اب اگر میں کہتا پھروں کہ فریال تالپور سے بڑا تعلق تھاتو یہ غلط بات ہے نا، محترمہ سے جو آخری ملاقات قمر زمان کائرہ کی ہوئی تھی اس کا قصہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں ۔انیس دسمبر کو زمرد خان اور قمر زمان کائرہ توقیر کائرہ کے پاس گئے اور میری موجودگی میں اسے کہا کہ ہماری محترمہ سے ملاقات کرادو۔اگلے دن توقیر نہیں آسکا میں آگیا میں جب ہاؤس پر پہنچا تو زمرد خان اور قمر زمان کائرہ دونوں کھڑے تھے اور فرحت اللہ بابر سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں توقیرکائرہ نے بھیجا ہے ۔میں نے محترمہ سے ملنا ہے ۔فرحت اللہ بابر کہہ رہا تھا اس کا کوئی فون نہیں آیا میں تمہاری محترمہ سے ملاقات نہیں کرا سکتا ۔میں نے فرحت اللہ بابر سے کہا کہ یہ درست کہہ رہے ہیں توقیر نے بھی آنا تھا مگر وہ نہیں آسکا ۔اس نے کہا ہے کہ انہیں محترمہ سے ملانا ہے اس کے بعد فرحت اللہ بابر نے محترمہ سے بات کی کہ توقیر نے ان لوگوں کو بھیجا ہے آپ انہیں ملاقات کا وقت دیں اور پھر محترمہ نے ملاقات کا وقت دیا اور ان کی ملاقات ہوئی اور ہاں توقیر کائرہ کے قمرزمان کائرہ کے ساتھ کوئی زیادہ اچھے مراسم بھی نہیں تھے ۔
(جاری ہے )
تازہ ترین