• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے جڑواں شہروں کے سنگم پر فیض آباد میں ایک گورنمنٹ پہلوی ہائی اسکول واقع ہے ۔اسکا نام شاید ایران کے مرحوم شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے نام پر رکھا گیا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ شہشاہ ایران کے دور اقتدار میں انکا کروفر کیا تھا ۔لیکن یہ اسکول صرف نام کا پہلوی ہائی اسکول ہے ۔کھوکھوں کے جھرمٹ میں چھپا ہوا اسکا ٹین کا چھوٹا سا گیٹ اگر آپ تلاش کرنا چاہیں تو آپ کو مشکل ہو گی ۔لیکن اگر انہی کھوکھو ں میں سے اگر فالودہ تلاش کرنا چاہیں تو وہ آسانی سے مل جائیگا ۔بس فالودے اور فروٹ کے ایک کھوکھے کے درمیان پہلوی ہائی اسکول کا گیٹ واقع ہے ۔دوسرے اسکولوں کی طرح اس اسکول میں بھی صبح تلاوت ہوتی ہے قومی ترانہ پڑھایا جاتا ہے ۔دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اس اسکول کی دیواروں پر بھی قائد اعظم اور علامہ اقبال کے اقوال لکھے ہیں ۔لیکن اسکے باوجود جب آپ اس اسکول کے اندر داخل ہو جائیں تو اسکا صحن کسی میونسپل کمیٹی کے گودام کا منظر پیش کرتا ہے ۔یا ان غریب مکینوں کی گلی کی صورت نظر آتا ہے جن کی گلی میں عرصہ دراز سے صفائی نہ ہوئی ہو۔گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب پانی کا ایک کو لرآتا ہے لیکن اسکے قریب تعفن اور گندگی کا ڈھیر اس پہرے دار کی طرح کھڑا ہے جسے کسی کنویں کے ظالم مالک نے کنویں سے کسی پیاسے کو پانی لینے سے روکنے کے لیے کھڑا کر دیا ہو ۔چھوٹے چھوٹے گھٹے ماحول کے کمرے کال کو ٹھری کامنظر پیش کرتے ہیں۔ اور اسکا بر آمدہ قیدیوں سے ملاقات کے لیے بنایا جانے والا عارضی قید خانہ لگتا ہے ۔مجھے کسی نے بتایا ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس اسکول کے صحن اور بر آمد ے میں اس قدر گندا پانی اور دلدلی کیچڑ ہوتا تھا کہ بچے اینٹوں پر لکڑیوں کے پھٹوں کا پل بنا کر گزرتے تھے ۔وہ تو بھلا ہو ”نسٹ “والوں کا کہ انہوں نے اسکا صحن اور برآمدہ ٹھیک کروا دیا تھا ورنہ آج نہ جانے اس اسکول کا کیا حال ہوتا۔مجھے یہ تو نہیں معلوم اس بھوت بنگلے نما اسکول میں ڈاکٹر ، انجینئر ، پائلٹ ، استاد اور جج بننے کی خواہش لے کر آنے والے معصوم بچے اپناخواب پورا کر سکیں گے یا نہیں ۔یا وہ اس تعلیمی ادارے سے علم حاصل کر کے اچھے اور باوقار شہری بن سکیں گے یا نہیں لیکن یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کم از کم اس اسکول میں پڑھنے والے سیکڑوں بچوں کے والدین اپنے ووٹ کو اس اسکول کی تزئین وآرائش سے مشروط کرد یں تو شاید وہ سیاسی لیڈر جو آج الیکشن اور ووٹ کی خاطر شادی بیاہ اور ان جانے لوگوں کے جنازوں تک میں پہنچ جاتے ہیں، وہ اس اسکول پر ضرور کچھ نہ کچھ خرچ کر دیں گے ۔پہلے تو ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات ہی نہیں اگر ہیں تو انکا حال انتہائی افسوسناک ہے ۔اگر عمارت ہے تو ٹیچر نہیں اور اگر ٹیچر ہے تو عمارت نہیں بلکہ میرے ایک دوست کا ازراہ تفنن یہ کہنا ہے کہ دور دراز کے گاؤں میں آج بھی بوھڑکا درخت ہی اسکول کی عمارت ہے۔ وہاں بھینس کھڑی کر کے اسکا بلیک بورڈ بنا لیا جاتا ہے اور اسکی دُم کو بطور ڈسٹر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ارد گرد رہنے والے ملکوں میں اگر لٹر یسی ریٹ دیکھیں تو پاکستان سے کہیں زیادہ ہے ۔کئی سالوں تک جنگ کی دلدل میں گھرے رہنے والے ملک عراق کا بھی لٹریسی ریٹ ہم سے زیادہ ہے ۔اگر ہمارے ملک میں ایسے ہی تعلیمی ادارے اور ایسا ہی تعلیمی ماحول جاری رہا تو پھر ایسے ہی لیڈر بھی ملیں گے جن کے پاس جعلی اسناد ہو نگی اور انہیں کچھ بھی نہیں آتا ہو گا سوائے کہ وہ دو جمع دو کو چھ کرنے میں لگے رہیں گے ۔
تازہ ترین