• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا نے جب سے لاہور اور اسلام آباد کو اپنے نرغے میں لیا ہے میں اپنے آبائی شہر میانوالی میں مقیم ہوں۔ اسد رحمٰن کے ڈیرے پر دھیمے سروں میں روشنی اور خوشبو کی بانسری بجا رہا ہوں۔ یہاں دو تین سو اصیل مرغ ہیں ، چار پانچ سو اونچی اڑانیں اڑنے والے کبوتر ہیں۔ صبح آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جاتے ہیں اور شام کو بادلوں سے نیچے آتے ہیں۔ دور دور تک لہلہاتے کھیت اور پھلوں سے لدے باغات ہیں جہاں ڈھیروں تتلیاں اڑتی پھرتی ہیں۔ طرح طرح کے پرندے چہچہاتے ہیں۔ میں روز بڑے برگد کی چھائوں میں دوپہر کو مظہر خان اور پرویز شیخ کے ساتھ رمی کھیلتا ہوں۔ سہ پہر کو بہتے ہوئے کھالوں نالوں اور ہنستی ہوئی پگڈنڈیوں سے ہمکلام ہوتا ہوں۔ بس رات یہاں ذرا جلدی ہو جاتی ہے۔

یہ بھی نہیں کہ وہاں تنہا ہوں۔ دوست اکثر ملنے آ جاتے ہیں۔ معروف کالم نگار اور اینکر ہارون الرشید آئے تھے۔ تقریباً چار دن ٹھہرے۔ تونسہ سے سعید بزدار آئے۔ ان کے ساتھ نوجوان شاعر تہذیب حافی کے والد بھی تھے۔ اسلام آباد سے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری آئے، ان کے ساتھ تنویر حسین ملک بھی تھے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے دفاع امجد علی خان اور بلدیات کے پارلیمانی سیکرٹری احمد خان بچھر کے ساتھ تو اکثر محفلیں جمتی ہیں۔ سپریم کورٹ سے ندیم نیازی آئے تھے۔ سیالکوٹ سے شیخ عتیق آئے ،شہباز گِل سے بھی ملاقات ہوئی،میانوالی کے ڈپٹی کمشنر عمر شیر چٹھہ سے بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ڈی پی او میانوالی اسد حسن علوی تو یہاں اتنے مقبول ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔اے ڈی سی جی واحد ارجمند ضیا بھی اچھے افسر ہیں،میجر خرم حمید اورمختیار رانا سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ ان کے علاوہ سلیم شہزاد، نذیر یاد، اظہر نیازی، اختر مجاز، ظفر اقبال برق اور حسن رضا تو میری کیبنٹ میں شامل ہیں۔ کورونا سے محفوظ رہنے کے سارے انتظامات انہی کے پاس ہیں۔ میانوالی عمران خان کا شہر ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے کپتان سے محبت کرتے ہیں۔ میری یہاں کئی لوگوں کے ساتھ لمبی لمبی بحثیں ہوئیں کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے میں ابھی تک کامیاب کیوں نہیں ہوسکے۔ ان مباحث کا حاصل حاضر ہے۔

عمران خان کو ایک لٹا پٹا پاکستان ملا تھا۔ خزانہ تقریباً دیوالیہ ہو چکا۔ ایٹمی جنگ کے خطرات سر پر منڈلا رہے تھے۔ مشرقی محاذ پر گولا باری جاری تھی۔ پھر بالاکوٹ پر انڈین جہازوں کا حملہ اور فضائی معرکہ جس میں دو انڈین جہاز گرا دیے گئے۔ اس کے بعد دو تین ماہ پاکستان کو اپنے جہاز مسلسل فضائوں میں رکھنا پڑے۔ جن کے صرف پٹرول پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ معاشی صورتحال خراب تر ہوتی گئی۔ ایسے میں انہیں شاید کسی دبائو میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کوتبدیل کرنا پڑا۔ بہرحال یہ فیصلہ غلط تھا مگر جب عمران خان کو اس بات کا احساس ہوا تو تیر کمان سے نکل چکا تھا، اس وقت بھی عمران خان کی ٹیم میں اسد عمر سے بہتر کوئی نہیں اور یہ بات خود عمران خان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا۔ اتحادیوں نے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان ان مشکلات سے نکلے توکورونا کی تباہ کاریاں شروع ہو گئیں۔ لاک ڈائون میں بارہ ہزار کروڑ تو صرف غریبوں میں تقسیم کرنا پڑے۔ اب کورونا کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل کی وحشت سامانیاں بھی عروج پر ہیں۔ یہ طے ہے کہ یہ تمام مشکلات عمران خان کو توڑ نہیں سکیں وہ بڑی بہادری سے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہیں ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ادراک ہے کہ وہ ایک غریب ملک کے وزیراعظم ہیں۔ انہیں اپنے غریب عوام کا بہت احساس ہے۔ وہ سوچتے ہیں موجودہ تنخواہ میں جب وزیراعظم کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تو مزدور کس طرح زندگی گزارتا ہوگا۔ جنوری میں انہوں نے بزنس کمیونٹی کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میں ذاتی گھر میں رہتا ہوں اور اپنے اخراجات خود اٹھاتا ہوں۔ میری سرکاری تنخواہ اتنی کم ہے کہ اس میں میرے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے‘‘۔ میں نے کسی نہ کسی طرح معلوم کر ہی لیا کہ وزیراعظم کی تنخواہ کتنی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) وزیراعظم عمران خان کی جو ہر ماہ سیلری سلپ جاری کرتا ہے اس کے مطابق ان کو بنیادی تنخواہ اور الاونسز میں سے مختلف ٹیکسوں کی کٹوتی کے بعد ایک لاکھ چھیانوے ہزار نو سو اناسی روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ بے شک ایسا وزیراعظم پاکستان کو پہلی بار نصیب ہوا ہے وگرنہ زیادہ تر وزرائے اعظم کے مختلف کیمپ آفس (یعنی مختلف شہروں میں گھر) کے اخراجات اربوں روپے ہوتے تھے۔ عمران خان کا کوئی کیمپ آفس نہیں۔ وہ اپنی رہائشگاہ کے تمام اخراجات اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ نوکروں کی تنخواہیں، بل اور سیکورٹی پر اٹھنے والے اخراجات بھی خود ادا کرتے ہیں۔ نواز شریف کے دورِ حکومت میں صرف ان کی سیکورٹی پر آٹھ ارب روپے خرچ آئے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں وزیراعظم کے دفتر میں ملازمین کی تعداد پہلی مرتبہ کم ترین سطح پر آئی۔ سرکاری گاڑیوں کے طویل کارواں ختم ہوئے اور وزیراعظم نے جو کچھ بچایا اس کی ایک ایک پائی غریبوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہوئی۔

تازہ ترین