• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید تارکین وطن کی الیکشن میں شمولیت نتائج کو تو متاثر نہ کر سکے لیکن ان کی اشک شوئی تو ہو ہی جائے گی۔ ویسے ہم تارکین وطن ہیں دلچسپ مخلوق۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کے ساتھ سیاسی دیوانے، بدھو یا چریا جیسا کونسا سابقہ لاحقہ لگایا جائے۔ ان بدھوؤں کی مادر وطن میں صورتحال بڑی قابل رحم ہوتی ہے۔ اگر وہ امریکہ، یورپ یا کسی بھی دیار غیر (خاص طور پر امریکہ) سے آکر اپنے نئے اپنائے دیس کی بات کرے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تمہیں اس ملک کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، ہم زیادہ جانتے ہیں اور اگر وہ تھوڑی سی عزت نفس بحال کرنے کیلئے پاکستان کے بارے میں کچھ کہنے کی کوشش کرے تو اسے یہ کہ کر فوراً خاموش کرا دیا جاتا ہے کہ تم تو یہاں رہتے ہی نہیں ہو تمہیں کیا پتہ۔ غرضیکہ وہ ہر صورت میں دیوانہ، چریا یا بدھو ہے۔ شاید اسی لئے سلطان باہو نے یہ بیت لکھا تھا:
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنھاں تھیں بھارے ہو
(خدا کرے کوئی مسافر نہ ہو کیونکہ گلی کے تنکوں کا وزن بھی اس سے بھاری ہوتا ہے)
بحث میں ہمارے بدھو کو چاروں شانے چت گرا کر گفتگو کا دوسرا دور پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے شروع ہو کر بیٹے بیٹیوں کی شادی تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر دردناک آواز اور آنکھوں میں آنسو بھر کر اسی بدھو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جیب خالی نہیں تو کافی ہلکی تو ضرور ہی کر دے۔ بیچارہ تارک وطن کچھ شرمساری اور کچھ خوشحالی کا غرور نبھانے کیلئے ایک مرتبہ پھر سے بدھو ہونا ثابت کر دیتا ہے۔ زیادہ تر دوستوں رشتہ داروں کیلئے تارک وطن ڈالروں کا پیڑ ہے جسے وقتاً فوقتاً ہلا کر ضرورتیں پوری کی جا سکتی ہیں۔اوورسیز فاوٴنڈیشن میں کام کرنے والے ایک پرانے دوست نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ اس کا تجربہ ہے کہ تارکین وطن کا نہ کوئی بھائی ہے نہ بہن نہ دوست نہ رشتہ دار اور نہ ہی حکومت کی خیر خواہی اس کی قسمت میں لکھی گئی ہے۔ وہ ہر ایک کیلئے ایک ایسی جنس ہے جسے نچوڑ کر کچھ نہ کچھ نکالا جا سکتا ہے۔ بہت سے چشم دید واقعات ہیں کہ تارکین وطن خاندان کی محبت میں سب کچھ اونے پونے بیچ کر واپس چلے گئے اور وہاں جا کر پتہ چلا کہ ان کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے، ضرورت تو اس کے ڈالروں کی ہے لہٰذا اس کا بھلا واپس جانے میں ہی ہے۔ تارکین وطن کو نچوڑنے میں حکومت پاکستان بھی بڑی ماہر ہو چکی ہے۔ اپنے گھاٹے پورے کرنے کیلئے بلکہ اپنی عیش و عشرت کے لئے وہ تارکین وطن کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔ آج کل پاکستان ٹیلیفون کالیں کرنے پر بلاوجہ ٹیکس دگنا کر دیا گیا ہے چنانچہ اب پاکستان کال کرنے کے ریٹ ہندوستان سے دو تین گنا زیادہ ہیں۔ اسی طرح سفارت خانوں نے ہر سروس کی فیس کئی سو گنا کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اگر ایک ملک اپنی فیسیں بڑھا دے تو دوسرے کو بھی اس کا حق ہے۔ مطلب اگر برطانیہ اور امریکہ نے ویزہ وغیرہ کی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا ہے تو پاکستان کو بھی یہ کرنے کا حق ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پاکستان کے سفارت خانوں سے ویزہ اور دوسری سہولتیں لینے والے پچانوے فیصد پاکستانی تارکین وطن ہی ہوتے ہیں ویسے تو امریکہ اور برطانیہ کے سفارت خانوں سے ویزہ وغیرہ لینے والے بھی زیادہ تر پاکستانی ہی ہوتے ہیں یعنی اگر امریکہ اور برطانیہ پاکستانیوں سے مال بنانے کیلئے فیسیں بڑھاتے ہیں تو پاکستان کے لندن اور واشنگٹن سفارت خانوں کو بھی وہی لوٹ مار کرنا لازم ہے یعنی ہر طرف سے لٹتا پاکستانی تارکین وطن نے ہی ہے!بعض صورتوں میں تو حکومت پاکستان کی فیسیں مضحکہ خیز بھی ہیں مثلاً چند سال پیشتر حکومت نے پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) شروع کیا تھا جو کہ ایک طرح کا شناختی کارڈ تھا اور اس کی موجودگی میں ویزہ نہیں لینا پڑتا تھا۔ کچھ عرصہ پیشتر یہ کارڈ ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ نیشنل آئیڈنٹیفیکیشن (نائیکاپ) کارڈ متعارف کرا دیا گیا لیکن پاکستان اوریجن کارڈ والوں سے کہا گیا کہ وہ پہلے اپنا کارڈ سرنڈر (ترک) کرنے کے ڈیڑھ سو ڈالر سے زیادہ ادا کریں اور نائیکاپ کی فیس اسکے علاوہ دیں۔کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ ایک کارڈ آپ نے خود ہی شروع کیا تھا اور اس کے لئے بھاری فیس لی تھی اب آپ نے اسے خود ہی ختم کر دیا تو کارڈ ہولڈر سے جرمانہ کیوں وصول کیا جا رہا ہے؟
پاکستان کی حکومت تارکین وطن کی ترسیلات میں بڑھتے ہوئے اضافے کو بھی اپنے کارناموں میں درج کر لیتی ہے۔ اب سرکاری سطح پر تیرہ یا چودہ ارب ڈالر اس مد میں پاکستان وصول کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ رقوم تیس ارب ڈالر کے قریب ہوں گی کیونکہ بہت سی رقومات دستی یا حوالے سے بھیجی جاتی ہیں ۔ اسکے علاوہ لاکھوں تارکین وطن ہر سال مادر وطن جا کر بہت بڑی رقومات خرچ کرتے ہیں۔ یہ وہ تیس ارب ڈالر کی کمائی ہے جو پاکستان کی معیشت کو گرنے سے بچانے میں کافی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان بیرونی امداد کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے بلکہ بیرونی امداد تو حاکم ٹولے اور نوکر شاہی میں بٹ بٹا جاتی ہے لیکن تارکین وطن کی بھیجی اور خرچ کی ہوئی رقوم لاکھوں خاندانوں اور سیکڑوں کاروباروں کی مدد کرتی ہیں۔
پاکستان میں درمیانے طبقے کی وسعت تارکین وطن کی ترسیلات سے ستّر کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ لاکھوں تارکین وطن نے اپنے خاندانوں کو باقاعدہ متمول درمیانے طبقے میں داخل کرایا۔ اس درمیانے طبقے کی توسیع سے مختلف کاروبار شروع ہوئے اور پھلے پھولے۔ آپ صرف عمارت سازی کی صنعت کو ہی لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح تارکین وطن کی ترسیلات نے اینٹ، سیمنٹ، لوہے اور دیگر صنعتوں کو فروغ دے کر منافع بخش بنایا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جب درمیانہ طبقہ وسیع تر ہوتا گیا تو مقامی کاروباری طبقے نے اندرون ملک معیشت کو بہت ترقی دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بری حاکمیت کے باوجود معاشی ترقی منجمد نہیں ہوئی۔پاکستانی معیشت میں انتہائی مثبت کردار ادا کرنے کے باوجود تارکین وطن کیساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہر تارک وطن اپنے خاندان کی کفالت کیلئے رقوم بھیجتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ملک پر کوئی احسان نہیں کر رہا لیکن یہ تو ہر شعبے کے بارے میں درست ہے کہ کسان ہو یا سرمایہ دار اپنے حصول اور منافع کیلئے کام کرتا ہے وہ بھی کسی پر احسان نہیں کرتا، لیکن ہر سیکٹر معیشت میں اپنی اہمیت کا شور مچا کر حکومت سے مراعات لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کسی کو کوئی رعایت نہیں ملتی تو بدھو تارک وطن کو۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسکا ازالہ کیا جائے۔ہمارے خیال میں دہری شہریت کا پاکستانی قانون درست ہے اور تارکین وطن کو پاکستانی اسمبلیوں وغیرہ میں نمائندگی نہ دینے کا جوا ز یہ ہے کہ ان کی وفاداریوں میں یکسوئی نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی درست ہے کہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے تاکہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ موجودہ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تارکین وطن کی سہولتوں کیلئے کوئی باقاعدہ ایجنڈا دیں جن میں مندرجہ ذیل نکات زیر نظر رکھے جائیں۔
ترسیلات کے نظام کو سستا اور آسان بنایا جائے۔
سفارت خانے مختلف مدوں میں لی جانیوالی فیسوں کو کم کریں جس کیلئے ان سفارت خانوں کا حجم کم کرنا ضروری ہے۔
ٹیلیفون جیسی سہولتوں پر بلاوجہ ٹیکسوں کا بوجھ نہ لادا جائے ۔ اس سے نہ صرف انفرادی سطح پر تارکین وطن کو نقصان ہوتا ہے بلکہ کاروبار کرنیوالوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی مثال کو مد نظر رکھا جائے۔
ہندوستان نے نان ریذیڈنٹ انڈینز (این آر آئیز) کی سرمایہ کاری اور بچتوں کیلئے جو اچھے پروگرام شروع کر رکھے ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔
تازہ ترین