• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جو سیاست ہے بس ’’ان‘‘ کا ہے کام

سیاست شروع تو اس لئے ہوئی تھی کہ گرتوں کو تھام لے ساقی، مگر پھر یہ ساقی گری کی اس طرح لاج رکھنے لگی کہ گرتوں سے اپنے اٹھنے کا کام لے ساقی، شریف لوگوں نے سیاست گری کی جگہ سیاسی دانشوری اختیار کرلی، کہ یہ شرفاء کیلئے گوشہ نرم بھی ہے اور گرم بھی، ایک نِرے دانشور ہوتے ہیں ان سے صرف ٹاک شوز کا کام لیا جاتا ہے، ایک لڑکی یا لڑکے کو سوالات کی ’’پنڈ‘‘ دیدی جاتی ہے، دانشور کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے پھر پینڈورا باکس کھلتا ہے اور تمام حادثوں کی اصل وجوہات معلوم ہو جاتی ہیں اسے کوڈ اَن کوڈ کہا جاتا ہے، سیاست دان کبھی مرتا نہیں، کم از کم ہمارے ملک میں تو اَمر ہو جاتا ہے، اور ادھر ڈوبے ادھر نکلے پر عبور رکھتا ہے، نتیجہ یہ کہ کچھ بھی ہو جائے ملکی معیشت کا بیڑا غرق رہتا ہے، ایک ہمارے ’’شیخ‘‘ ہر حکومت میں ویری مچ ان ہوتے ہیں، ہم نے ایک گیت ’’یہ جو سیاست ہے بس ان کا ہے کام‘‘ کو اس لئے عنوان بنایا کہ شاید ’’ان‘‘ کے بارے میں کچھ روشنی پڑے اور یہ جو چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کا موسم ہے اس کے ’’اوزون‘‘ کا پتا لگایا جائے کہ اس میں ’’ان‘‘ نے کتنے شگاف ڈالے ہیں، ہمارے ہاں سیاست گردش دوراں نہیں گردش دائرہ ہے جس میں 72برسوں سے عوام کو ڈال کر ان کے پائوں میں گھنگھرو باندھ کر اس گیت کی ریہرسل کرائی جاتی ہے کہ ’’روتے ہیں چھم چھم نین؍ اجڑ گیا چین‘‘ مگر دائرہ کے اندر سیاست دان دائرے کے اندر بھی ہوتے ہیں اور باہر بھی، اندر سے مراد پاکستان، باہر کا مطلب انگلستان، خیر چھوڑیں ہمیں سیاست سے کیا کہ اس میں موجود ہنرمند خود ’’مٹھے چول‘‘ کھاتے اور عوام کو سناتے ہیں ’’سیاست ماہ رمضان کا مہینہ ہے ‘‘ جس میں ماہ بھی ہے مہینہ بھی۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

بجلی نے کیتا بھیڑا حال

بجلی اور غربت صرف یہی ہمارے ساتھ وفادار ہیں دونوں آتی جاتی رہتی ہے ایک آکے چلی جاتی دوسری مستقل ہمارےساتھ رہتی ہے کہ اسی میں تہہ در تہہ منافع ہے۔ صرف منافع خوروں کیلئے اور نقصان ہی نقصان ہے خواروں کیلئے۔ بجلی کی تمام کمپنیاں جن کے آخر میں ’’کو‘‘ آتا ہے پیسے پورے لیتی ہیں بجلی کبھی کبھی، لیسکو کے تعلقات عامہ کے افسر سے بصد عجز و نیاز عرض کیا حضور 3دن سے ہم جون کی گرمی میں جلتے رہے بھنتے رہے کہ اب آئے کہ اب آئے۔ آخر واپڈا کی وساطت موصوف کا نمبر حاصل کیا اور گزارش کر دی جواب یہ ملا وہ بھی شیریں سخنی میں ڈوبا ہوا، تو کیا آپ نے متعلقہ ایس ڈی کو درخواست لکھ کر پیش نہیں کی، چلو میں کچھ کرتا ہوں۔ ایک تو ہم اہل قلم پر یہ تہمت کہ کیا تم اچھے خاصے پڑھے ہو اور درخواست تک نہیں گزاری، جواب آں غزل کیا دیتے چپ ہو رہے، بہرحال بجلی اپنی سی کرکے آ ہی گئی۔ اب آتی جاتی رہتی ہے یہ لکھنے والے ہوتے ہیں یہ پی ٹی آئی کے دور میں بھی گرمی برداشت کر لیں گے مگر کسی بھی قسم کے پی آر او کے لہجے کی سردی برداشت نہیں کر پاتے، کبھی پی آر او نے اپنے افسران بالا کو یہ بتایا کہ کینال روڈ پر اسٹریٹ لائٹ ہے نہ کھمبا، تاروں کے خوفناک سائے، ایک گھر سے دوسرے گھر چھت در چھت منتقل کر دیے جاتے ہیں، لاہور میں جونہی گرمی نے زور دکھایا غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے کہا جاندے کتھے او، آخری بات یہ کہ کینال پوائنٹ کا فیکٹری والا ہائی وولٹیج کا ٹرانسفارمر تاروں سمیت لوگ جاکر دیکھ آئے ہیں موجودہ ٹرانسفارمر علاقے کیلئے کافی نہیں، بدلا جائے اور ہمارا گلہ ہے نہ شکوہ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کورونا کو عزت دو

ووٹ کو عزت دینے سے تو کچھ ملے نہ ملے مگر کورونا کا احترام کم از آپ کو معاف کر دے گا، کسی ایسے کی جانب بڑھے گا جو احتیاطی تدابیر کی پروا نہیں کرے گا، ہماری احتیاط سے کورونا ’’پرونا‘‘ بن سکتا اور اپنے گھر جا سکتا ہے لیکن جو حسن سلوک اور خوش آمدید ہم پیش کر رہے ہیں وہ ہماری فرمائش پر نیا جوڑا پہن کر یہاں مستقل رہائش اختیار کرے گا پھر جو اس سے بچے اسے غربت مار دے گی اور جو غربت سے بچ گیا ذخیرہ اندوزی کرکے اسے کورونا وائرس پڑ جائے گا، اس لئے یہ جو گھروں میں مذہب، سماجی رسوم کی بنیاد پر مجمع لگایا جاتا ہے ایک کی غلطی سے پورے علاقے کو لپیٹ میں لے لے گا، کورونا بھی سوچتا ہو گا کہ یہ ضرورت سے زیادہ بہادر قوم پولیس سے ڈرتی ہے مجھ سے نہیں ڈرتی، کیا پتنگ بازی کو بھی ہم نے کورونا نہیں بنا لیا، ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ گلی گلی، محلہ محلہ، ٹیوشن سنٹرز بغیر کسی احتیاط کے جاری ہیں ٹھیک ہے لوگوں کو پڑھائیں مگر ایس او پیز پر بھی عمل کریں جو ایک چوبارے میں تو ممکن نہیں، نجانے ہر بار ہماری یہ گزارش قلم زد کیوں کر دی جاتی ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

بے گناہی کم گناہ نہیں!

٭...افسوسناک حیرانی ہے کہ پاک سرزمین نجانے کب شاد باد ہو گی ایک شخص کو بے گناہ بے خطا 100دنوں سے جیل ڈال رکھا ہے، خان صاحب کبھی خانِ خاناں کا بھی مطالعہ کرلیں وہ ایسے نہیں کرتا تھا کہ ایک تین چار دہائیوں پرانے کیس کی قبر کشائی کرے اور کسی بے گناہ کو کیس کھول کر سلاخوں کے پیچھے بند کر دے۔ ساری دنیا کی صحافت سراپا احتجاج ہے کہ ایک سچ کے پرچارک کو رہا کرو، اگر آج تمام میڈیا ہائوسز، اخبارات و رسائل 24گھنٹے کیلئے بھی اطلاع رسانی بند کر دیں اور صحافتی اتحاد کا مظاہرہ کریں تو ملک بھر میں گھپ اندھیرا چھا جائے، یہ محض بیانات، پھوکے کارتوس ہیں، اپنی نشریات و تحاریر بند کریں تاکہ ایک حق سچ کا قیدی، ظلم کی قید سے رہائی پا سکے، اب تو یہ تاثر بھی سامنے آ گیا ہے کہ خدانخواستہ صحافت بھی اپوزیشن کی طرح منتشر ہے، ہماری باتوں کا برا نہ منائیں سب ان پر غور کریں، میر شکیل الرحمٰن کو پا بہ زنجیر کرنا سب کیلئے مہنگا پڑ سکتا ہے۔ فاعتبروایااولی الابصار

تازہ ترین