• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں ہر مرض کا علاج موجود ہے مگر ہٹ دھرمی اور من مانی کا کوئی علاج نہیں۔ نظریہٴ پاکستان کیا ہے؟کیا قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہٴ پاکستان کی صراحت ، وضاحت میں ایک سو ایک اقوال اور علامہ اقبال کے ان گنت ارشادات اور 1940ء کی دہائی میں برصغیر کے آٹھ دس کروڑ مسلمانوں کے قریہ قریہ اور کو بہ کو بلند ہوتے ہوئے نعروں کی گونج کافی نہیں۔کیا اس کے بعد مزید کسی تشریح کی ضرورت باقی رہتی ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں”ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کے لئے ہم قائد کے پاس بیٹھے تھے، میں نے دیکھا کے وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں، ہم نے بولنے سے منع کر رکھا تھا اس لئے الفاظ لبوں پر آ کر رک جاتے تھے، اسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کے لئے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی تو وہ گویا ہوئے”تم جانتے ہو جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا بھی اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے“۔ قائداعظم محمد علی جناح  نے فرمایا ”مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا ۔پاکستان کے طرز حکومت کو متعین کرنے والا میں کون ہوں۔یہ کام پاکستان کے رہنے والے مسلمانوں کا ہے اور مسلمانو ں کے طرز حکومت کا فیصلہ آج سے1300سال قبل قرآن کریم نے کر دیا تھا۔اگرچہ بعض ریٹرننگ افسران نے غیر مہذب رویہ اختیار کیا اور نامناسب ناروا سوالات پوچھ کر آئین کی دفعہ 62/اور 63 کو طنزوتمسخر کا سامان بنانے کی کوشش کی مگر جو نظریہٴ پاکستان ،قرارداد مقاصد اور 1973ء کے متفقہ اسلامی جمہوری آئین کا تمسخر اڑائے گا تو اس پر گرفت ہونی چاہئے اور بڑی سخت گرفت ہونی چاہئے ۔اس وقت نظریہٴ پاکستان کی مخالفت کی زد میں آئے ہوئے دانشور سیاستدان اس لئے تلملا رہے ہیں کہ اُن کا خیال تھا کہ پہلے کی طرح الیکشن کمیشن ایک روٹین کی کاغذی کاروائی مکمل کرے گا اور اللہ اللہ خیر صلا…دانشور کالم نگار ایازا میرارد شیرکاؤس جی کی طرح کھلے عام مے نوشی کی تعریفیں کرتے رہے ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔تازہ ترین امریکی جریدے ٹائم میں ہلیری کلنٹن کا بیان چھپا ہے کہ امریکہ میں ہم جنس پرستی کی آزادی ہونی چاہئے اور ایسی شادیوں پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے مگر جب اسی ہلیری کلنٹن کے سابق صدر امریکہ بل کلنٹن سے مونیکا لیونسکی کے ساتھ دل لگی کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو سارے امریکہ میں کہرام مچ گیا اور پھر کلنٹن کو ساری دنیا کے سامنے ایک ذلت آمیز عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی صفائی دینا پڑی۔ علامہ اقبال  جو مصور پاکستان ہیں انہوں نے فرمایا تھا ایک ایسا خطہ زمین درکار ہے جہاں اسلامی اقدار، حیات کی انفرادی تشکیل، سیرت اور اجتماعی کردار سازی کا پورا موقع حاصل ہوگا علامہ نے فرمایاتھا
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
پاکستان کے پہلے وزیرا عظم لیاقت علی خان کو بالعموم ایک پروگریسو شخصیت سمجھا جاتا ہے مگر نظریہٴ پاکستان کے بارے میں انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا قیام اسلام کے لئے ایک لیبارٹری ثابت ہو گا۔ تخلیق پاکستان کے موقع پر سب سے اہم کام مسئلہ قومیت کی تشریح تھی۔ کانگریس اور اس کے ہمنوا علمائے کرام مسلم کتب دشمنی یا کم فہمی کی بنا پر وطن، جغرافیے اور نسل وزبان کو قومیت کی بنیاد سمجھتے تھے مگر مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ظفر احمد انصاری نے وضاحت کی کہ اسلامی قومیت کی زبان ونسل نہیں عقیدہ ہے اور عقیدہ پر ہے کہ ہمارا معبود اللہ ہے اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔نظریہٴ پاکستان کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تو پاکستان ،قرار دادِ پاکستان ،مطالبہٴ پاکستان اور حصول پاکستان کا تھا جو بخیروخوبی تمام ہوا اور خود قائد اعظم محمد علی جناح  کی قیادت میں مکمل ہوا ۔نظریہٴ پاکستان کا دوسر ا مرحلہ ابھی تشنہٴ تکمیل ہے ۔دوسرا مرحلہ وہی ہے کہ جس کا تذکرہ قائد اعظم محمد علی جناح نے1945-1946ء کی انتخابی مہم کے دوران بار بار کیا کہ ہم پاکستان کو ایک خوشگوار اور خوشحال ملک بنانا چاہتے ہیں ۔پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھایا جائے گا جو اسلام کے عدل وانصاف پر مبنی اصولوں پر قائم ہو گاجہاں خوشی اور خوشحالی کا چلن عام ہوگا۔1944ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگی قائدین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ دنوں مجھے ملک کے کونے کونے میں جانے کا اتفاق ہوا، مجھے یہ دیکھ کر شدید صدمہ ہوا کہ مسلمان ہر جگہ نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔خوشحالی انہیں چھو کر بھی نہیں گزری وہ بدحالی کا شکار ہیں ۔اگر اہل ثروت کی تجوریاں بھرنے کیلئے پاکستان بنایا جا رہا ہے تو پھر میں اس جرم میں ہرگز شریک نہیں ہوں گا۔ قائداعظم نے شدید ترین الفاظ میں جاگیرداروں کی مذمت کی اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے رویّے کو درست کریں۔
پاکستانی قوم کی بدقسمتی تھی کہ جب بھارت صرف دوسال کے عرصے میں آئین تیار کرکے نافذ کر چکا تھا اس وقت ہمارے سیاست دان باہم دست و گریباں تھے اور سول وملٹری بیوروکریسی کی ملک کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں۔ 11/اگست1947ء کو قائد اعظم  کی تقریر میثاق مدینہ کی پیروی کا ایک بہترین شاہکار تھا مگر گنتی کے چند سیکولر دانشوروں نے اس تقریر کے دوجملوں کو بنیاد بنا کر کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں تحریر کر ڈالیں مگر حقیقت یہ ہے کہ باربار قرآن پاک کو دستور پاکستان قرار دینے والے قائد اعظم محمدعلی جناح  مغربی سیکولرازم کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔11/اگست کے دوجملوں میں قائد اعظم نے اقلیتوں کو بے پناہ اعتماد دیتے ہوئے کہا کہ آج سب اپنے اپنے معبدوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔
اور بحیثیت شہری آپ سب برابر ہیں ۔ قائداعظم وہ ریاست مدینہ کے نمونے پر دور جدید کی ایک اسلامی ریاست بنانے کے خواہاں تھے جہاں معاشی خوشحالی، سیاسی آزادی، معاشرتی رواداری اور تعلیمی ترقی اسلامی اصول مساوات وانصاف پر مبنی معاشرے کا قیام اُن کی اولین ترجیح تھی ۔نظریہٴ پاکستان کا یہ دوسرا مرحلہ صرف مکمل نہیں ہوا بلکہ 65برس کے دوران جاگیرداروں ،سرمایہ کاروں،اقتدار پرست جرنیلوں ،نوکر شاہی کے کل پرزوں اور بعض دانشوروں نے وہ لوٹ مار مچائی کہ الحفیظ والامان اور آج ملک کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کیلئے ترس گئے ہیں، بجلی کیلئے ترس گئے ہیں،گیس کیلئے ترس گئے ہیں،علاج معالجے کیلئے ترس گئے ہیں ، انصاف کیلئے ترس گئے ہیں اور یکساں تعلیم کے لئے ترس گئے ہیں۔آج وہی لیڈر قائد اعظم کا جانشین کہلانے کا حقدار ہو گا جو بانیٴ پاکستان کے وژن کے مطابق نظریہٴ پاکستان کا دوسرا مرحلہ مکمل کرے گا اور ملک میں خوشحالی لائے گا۔
تازہ ترین