• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی ہزاروں سال قدیم تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر بلوچوں کو بجا طور پر فخر ہے۔ وفاق سے دوسرے اختلافات کے علاوہ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ ان کی عظیم الشان تاریخ ، روایات زبان اور شخصیات کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں قومی شناخت دینے میں بخل سے کام لیا گیا ۔ اس سلسلے میں ایک صاحب علم بلوچ شخصیت غلام فاروق نے ہمارے گزشتہ کالم کی روشنی میں اپنے مشاہدات پر مبنی خط لکھا ہے اور دکھ کا اظہار کیا ہے کہ بلوچوں کی سماجی اقدار مادری زبان، رسوم و رواج اور روایات سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے اور ارباب اقتدار اس صورت حال سے بے نیازی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کی رائے میں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پاکستان میں چھپنے والی کتابوں اور تحقیقی حوالوں میں بھارت کی تاریخ ، ثقافت اور دوسری سماجی حقیقتوں کا ذکر تو کثرت سے ملتاہے مگر بلوچوں کی تاریخ اور تہذیبی روایات کو کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ بلوچوں یا دوسری وفاقی اکائیوں کے تاریخی و سماجی خدو خال اجاگر کرنے سے مملکت کمزور ہو جائے گی ۔ یہ بڑا عجیب و غریب فلسفہ ہے۔ آخر بلوچوں کی تاریخ ، بلوچی زبان کے محاوروں اور ضرب المثال ، بلوچی ادب ، شاعری اور سماجی اقدار کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟بلوچستان اگر پاکستان کا حصہ ہے تو ماضی و حال میں اس کا جو بھی ورثہ تھا یا ہے اسے بھی پاکستان کاحصہ ہونا چاہئے۔ اگر ہماری نصابی کتب میں میر تقی میر کا ذکر کیا جاتا ہے تو ملا فاضل یامست توکلی کاحوالہ کیوں موجود نہیں؟اگر ہمیں مغل بادشاہوں کے بارے میں پڑھنے پر مجبو رکیا جاتا ہے تو میر چاکر رند یا میر گواہرام لاشاری کے متعلق کیوں کچھ نہیں پڑھایا جاتا؟ملک کے دانشوروں اور اہل قلم کو بلوچوں ہی سے نہیں دوسری قومیتوں کے ساتھ بھی یہ ناروا امتیاز نہیں برتنا چاہیے ۔ غلام فاروق بلوچ کا یہ خط اہل سیاست کے علاوہ اہل علم کو بھی دعوت فکر دیتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان سے باہر حقائق سے بے خبر لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ اجڈ اور وحشی ہیں جو ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی گردنیں اڑا دیتے ہیں پھر ان کے سردار انتہائی ظالم ہیں جنہوں نے قرون وسطیٰ کے جاگیرداروں کی طرح لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے اور انہیں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک چلانے پر مجبور کر رہے ہیں ۔یہ سب گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں۔ غربت اور تعلیمی پسماندگی کے باوجود آج کا بلوچ سیاسی شعور میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ سرداری نظام بھی اتنا سخت گیر نہیں رہا۔ اگر کہیں کوئی سختی نظر آتی بھی ہے تو اس کی شدت پنجاب کے جاگیرداروں، سندھ کے وڈیروں اور خیبرپختونخوا کے خوانین کی سختیوں سے زیادہ نہیں۔ رہی علیحدگی یا مزاحمت کی تحریک تو اس کا زور نوابوں سرداروں کے علاقوں سے زیادہ ان اضلاع میں ہے جہاں سرداری نظام ہے ہی نہیں یا بہت کمزور ہے۔ شورش زدہ قبائلی علاقوں کے چند سردار زادوں کے سوا تقریباً تمام بڑے سردار شدید تحفظات مایوسی اور بددلی کے باوجود وفاق پاکستان کے حامی ہیں اور آنے والے انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔
بلوچ تاریخ اور تہذیب کے بارے میں احساس تفاخر تمام بلوچوں میں قدر مشترک ہے ۔ نواب اکبر بگٹی کو بھی بلوچ ہونے پر بے پناہ فخر تھا۔
ممتاز صحافی انور ساجدی سے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں دوسرے لوگ بے شک بلوچوں کو غیر تعلیم یافتہ جاہل اور گنوار سمجھیں لیکن میرے خیال میں ان کی روایات‘ کوڈ آف آنر ،قول نبھانا مہمان نوازی اور رسوم و رواج بہت اچھے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ بلوچ بھی دوسری قوموں اور زمانے کی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے ہیں لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود ان میں ایسے اوصاف ہیں جو دوسری قوموں میں نہیں۔ بلوچی لباس بلوچی ادب اور بلوچی شاعری نواب صاحب کو زیادہ پسند تھی ۔ جوانی میں اکثر بلوچی لباس پہنتے ۔ یہ بڑے گھیر والی شلوار لمبی قمیض اور پگڑی پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلوچ چہرے پر پگڑی کا لڑ ڈال لیتے ہیں۔ دیہات میں اب بھی یہ لباس پہنا جاتا ہے مگر شہروں میں کافی حد تک متروک ہو گیا ہے۔ بلوچ خواتین کا لباس سیستان سے ڈیرہ غازی خان تک تقریباً ہر جگہ ایک ہے ۔ ہر بلوچ قبیلہ ایک خاندان کی طرح رہتا ہے ۔ ہمسائے کا خیال رکھنا ، اقلیتوں اور عورتوں پر حملہ نہ کرنا شلوار پہننے سے پہلے کی عمر تک بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانا ان کے ضابطہ اخلاق کا حصہ ہے تاہم بعض صورتوں میں اب اس سے انحراف کی راہیں بھی نکالی جارہی ہیں جیسے آباد کاروں کا قتل۔ قرآن پاک کو بے حد تعظیم اور عورت اور ہندو کو عزت دی جاتی ہے ۔ ہتھیار ڈالنا بے عزتی سمجھی جاتی ہے۔ 1839میں انگریزوں نے قلات پر حملہ کیا تو خان محراب خان کے پاس ان کے مقابلے کیلئے مناسب افرادی قوت تھی نہ سامان حرب مگر انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہتھیار ڈالنے کی بجائے اپنی سرزمین پر جان قربان کر دی۔
قیام پاکستان کے بعد 1958ء میں اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا جس کے اثرات 55 سال بعد بھی شدت سے محسوس کئے جا رہے ہیں ہوا یہ کہ بلوچ قیادت مغربی پاکستان کا ون یونٹ توڑنے اور بلوچستان کے الگ صوبے کی تشکیل کے لئے تحریک چلا رہی تھی خان قلات، میر احمد یار خان بھی اس کے حامی تھے صورت حال خراب ہوئی تو مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی بجائے فوج استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا سیکورٹی فورسز کے دستے قلات میں داخل ہو گئے، خان قلات، ان کے 50 محافظوں اور تقریباً تین سو سیاسی قائدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے تحریک میں تشدد کا عنصر شامل ہو گیا جس پر قابو پانے کے لئے فورسز نے جھالا وان میں داخل ہو کر قبائلیوں سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار مقامی پولیس چوکیوں میں جمع کرا دیں بلوچوں نے اس حکم کو اپنی توہین گردانا اور چھاپہ ماردستے تشکیل دیکر مقابلے پر اترآئے۔ اس سے بلوچ مزاحمت کا نیا درد شروع ہوا جو کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ 2006ء میں نواب اکبربگٹی کے قتل کا واقعہ بھی ہتھیار ڈالنے سے انکار ہی کانتیجہ تھا۔ بلوچ عزت و وقار کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کیلئے تو تیار رہتا ہے مگر زور زبردستی سے ہتھیار ڈالنا اس کی روایات میں شامل نہیں۔
تازہ ترین