میں نے کورونا سے معیشت کو ہونیوالے نقصانات پر کئی کالم تحریر کیے ہیں لیکن ہر بار اس کے مضر اثرات نئے اعداد و شمار کیساتھ سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرے دوست لیفٹیننٹ جنرل (ر) ہارون اسلم نے مجھے دو گھنٹے کی ایک اہم ورکشاپ ’’پاکستان میں کورونا کے بعد بزنس ماحول‘‘ میں شرکت کی دعوت دی۔ دو گھنٹے جاری رہنے والی اس ورکشاپ میں میرے علاوہ سابق وفاقی پارلیمانی سیکریٹری کامرس اور کامن ویلتھ پارلیمنٹرین شاندانہ گلزار، امارات گروپ کے چیئرمین شفیق اکبر، ستارہ گروپ کے چیف ایگزیکٹو میاں محمد ادریس، ایمرجنگ اکنامک آئوٹ لک کے ایڈوائزری بورڈ کے ممبران طارق اکرام، ڈاکٹر شجاعت علی اور IIPSکے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ہارون اسلم ورکشاپ کے ماڈریٹر تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) ہارون اسلم نے بتایا کہ اس ورکشاپ کی سفارشات اعلیٰ حکومتی سطح پر جمع کرائی جائیں گی تاکہ انہیں ملکی پالیسیوں میں شامل کیا جا سکے۔ ڈاکٹر شجاعت علی نے بتایا کہ ورلڈ بینک اور نیشنل اکائونٹس کمیٹی نے کورونا وائرس سے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ میں شدید کمی کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ مالی سال 0.38فیصد رہی جو پاکستان کے 68برسوں میں سب سے کم ہے جبکہ 2020-21ء میں 1فیصد کا امکان ہے۔ میاں ادریس نے بتایا کہ ملک میں صنعت پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کا اضافی بوجھ ہے جس کی وجہ سے ملک میں صنعتکاری فروغ نہیں پاسکی۔ سابق وفاقی پارلیمانی سیکریٹری شاندانہ گلزار نے کورونا وائرس کے دوران احساس پروگرام کے تحت 19 اپریل تک 12ملین خاندانوں کو 12ہزار فی کس مالی امداد کو موجودہ حکومت کا ایک اہم کارنامہ قرار دیا۔ TDAPکے سابق چیئرمین طارق اکرام نے 14سیکٹرز کی شناخت کی جن کی ایکسپورٹس سے ہم ہر سیکٹر میں 3سے 4ارب ڈالر اضافی زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے 20ممتاز ایکسپورٹرز کی ہر ماہ وزیراعظم اور اُنکی معاشی ٹیم کے ساتھ میٹنگ پر زور دیا۔ امارات گروپ کے چیئرمین شفیق اکبر نے کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بینکوں سے مالی رسائی نہ ملنے کو اس سیکٹر کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں ملکی ایکسپورٹس اپریل میں 54فیصد اور مئی میں 37فیصد کم ہوئی ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق پاکستان میں متوقع 10لاکھ صنعتی یونٹس بند ہونے سے ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں جس سے بیروزگاری کی شرح 8سے 10فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ اِن حالات میں مینو فیکچرنگ اور ایکسپورٹ سیکٹر کو بحال ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے لہٰذاہمیں معیشت کے دیگر سیکٹرز پر توجہ دینا ہو گی جو مقامی طور پر دستیاب ہیں مثلاً ایگریکلچر، لائیو اسٹاک، فشریز، حلال فوڈز، ڈیریز، انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) اور ڈومیسٹک کامرس۔ ایگریکلچر کو فروغ دے کر ہم نہ صرف ملک میں زرعی اجناس میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ خطے بالخصوص خلیجی ممالک کو بھی فوڈ سیکورٹی فراہم کر سکتے ہیں۔ لائیو اسٹاک کا ملکی جی ڈی پی میں 11.3فیصد اور ملکی برآمدات میں 8.5فیصد حصہ ہے اور یہ سیکٹر دودھ اور گوشت کے علاوہ چمڑے، قالینوں اور اون کی صنعتوں کیلئے خام مال مہیا کرتا ہے۔ دنیا میں حلال فوڈز کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کے حلال فوڈ امپورٹ کرنے والے 5بڑے ممالک جن میں سعودی عرب 21.54 ارب ڈالر، ملائیشیا 15ارب ڈالر، یو اے ای15 ارب ڈالر اور انڈونیشیا 14ارب ڈالر شامل ہیں جبکہ حلال فوڈ کی ایکسپورٹ میں سب سے زیادہ مارکیٹ شیئر برازیل 10فیصد، بھارت 9فیصد، امریکہ 5فیصد، چین 5فیصد، تھائی لینڈ 4.4 فیصد اور آسٹریلیا 4.4فیصد ہے۔ یورپ میں حلال فوڈ کا بزنس 66ارب ڈالر اور امریکہ کا 13ارب ڈالر ہے۔
اگر ہم ملائیشیا کی طرح حلال فوڈ مارکیٹنگ کی حکمت عملی اپنائیں تو ہم بھی خطیر زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ ڈیری سیکٹر لائیو اسٹاک کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، ملائیشیا اور فلپائن میں پائوڈر اور پیک دودھ کی بڑی طلب کو پورا کرسکتا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے کراچی سے مکران تک 1120کلومیٹر طویل ساحلی پٹی سے نوازا ہے۔ فشریز سیکٹر میں اصلاحات کے ذریعے ہم مچھلی، جھینگے، ٹونا فش اور سی فوڈز ایکسپورٹ کرکے خطیر زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی مجموعی دولت کی 33فیصد ملکیت آئی ٹی کمپنیوں کے پاس ہے جو تقریباً 2.8ٹریلین ڈالر ہے۔ دنیا میں آئی ٹی کی ایکسپورٹ میں پہلے نمبر پر جاپان ہے جسکی ایکسپورٹ 423بلین ڈالر، دوسرے نمبر جرمنی 183بلین ڈالر، تیسرے نمبر امریکہ 148بلین ڈالر، چوتھے نمبر سنگاپور 128بلین ڈالر، پانچویں نمبر فرانس 108بلین ڈالر، چھٹے نمبر ملائیشیا 61بلین ڈالر، ساتویں نمبر 50.5بلین ڈالر اور آٹھویں نمبر پربھارت ہے جس کی آئی ٹی ایکسپورٹ 12.4بلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ صرف 1.4بلین ڈالر ہے۔ گوگل نے حال ہی میں پاکستان کو ڈیجیٹل دنیا میں تیزی سے ابھرتا ہوا ملک قرار دیا ہے۔