کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے لیکن ابتدا تا ہنوز اس سلسلے میں کسی عملی پیشرفت کی نظیر نہیں ملتی، اسلام کا قانون قرآن و سنت سے عبارت ہے لیکن پاکستان کے پہلے وزیر قانون کوئی عالم فاضل نہیں بلکہ جوگندر ناتھ منڈل تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم قیام پاکستان کے ساتھ ہی تعلیمی نصاب میں قرآن مجید کے ترجمے کو لازمی قرار دیتے، اس سے ہم اسلام کے حقیقی چہرے سے روشناس ہوتے اور ایسے فرقوں میں تقسیم ہونے سے محفوظ رہتے جس کی وجہ سے آج ایک مسلمان دوسرے مکتبِ فکر کی امامت میں نماز تک پڑھنے کیلئے آمادہ نہیں۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ وہ جماعتیں جو اسلامی نظام کا نعرہ لگاتی ہیں، ماسوائے جماعت اسلامی کے، کسی بھی جماعت کے ہاں قرآن مجید کے ترجمے کا ایسا اہتمام نہیں کہ عام لوگ اس عظیم کتاب سے مستفیض ہو سکیں بلکہ جب جب یہ عناصر حکومتوں میں آئے انہوں نے اس سلسلےمیں ایک بھی قدم نہیں اُٹھایا۔ تضادات سے آراستہ ایسے ماحول میں حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت کا ایک مستحسن فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے مطابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے قر آن پاک ترجمہ کے ساتھ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جامعات میں قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھے بغیر ڈگری نہیں ملے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا انگریزی میڈیم طبقہ قرآن مجید کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کرنے سے عاری ہے تو دوسری جانب مذہبی عناصر قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنےکی جانب عوام کو راغب نہیں کر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھا اور اس پر عمل کیا جائے تو اس میں دنیاوی ترقی و آخرت کی کامیابی کے دونوں چشمے موجود ہیں۔ فی زمانہ ترقی و عروج سائنس و ٹیکنالوجی کےبغیر ممکن نہیں اور قرآن مجید میں اس حوالے سے ایک ہزار سے زائد آیات ہیں، گویا یہ عظیم کتاب ہی اس جانب سب سے بڑی رہنما ہے۔ زیر نظر سطور میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ خود قرآن مجید تدبر و سمجھ کر یعنی ترجمے کیساتھ پڑھنے سے متعلق کیا فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے (سورۃ بقرہ)۔ ’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل نصیحت پکڑیں (سورۃ ص)۔ اس آیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ قرآن کی آیتوں میں تدبر و تفکر اس کے نزول کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ امام محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبیؒ تفسیر میں لکھتے ہیں ’’یہ آیت اور سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’کیا وہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں‘‘ غور و فکر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ اس کے معنی کو جان لیا جائے‘‘۔ وطن عزیز میں یہ تاثرعام کر دیا گیا ہے کہ کہ عام مسلمان قرآن کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے صرف ثواب اور برکت کی خاطر تلاوت کرتے رہیں۔ اب جس کتاب کو اللہ رب العزت نے عالم انسانیت کی ہدایت کیلئے نازل کیا ہو وہ مشکل کیسے ہو سکتی ہے۔ سورہ قمر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کیلئے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے‘‘۔ یہ الفاظ اس سورت میں چار مقامات پر آئے ہیں، اس کے علاوہ بھی دیگر مقامات پر اس طرح کی آیات موجود ہیں۔ ’’قرآن مجید کا ترجمہ محض علما تک محدود کرنا کسی بھی طور درست نہیں، قرآن مجید میں یاایھا الذین آمنو (اے ایمان والو) 89مرتبہ اور یاایھا الناس (اے لوگوں) 47مرتبہ آیا ہے، یعنی خداوند ایمان والو اور پھر عام انسانوں سے مخاطب ہے۔ اب جب ترجمہ ہی نہ آتا ہو تو کوئی کیسے یہ جان سکے گا کہ خدا تعالیٰ اُن سے کہنا کیا چاہتا ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کریمﷺ روزِ قیامت یہ شکایت درج کریں گے ’’اے اللہ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (سورۃ فرقان) واضح رہے کہ چھوڑنے سے مراد اس پر غور و تدبر اور عمل نہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے سینکڑوں آیات ہیں، ہم نے چند مثالیں دی ہیں۔ مختصر یہ کہ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع انسان ہے، جسے اس عظیم کتاب میں بارہا اِس امر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کیلئے تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے۔ قران مجید کو ترجمے سے پڑھانے کےمتعلق پنجاب حکومت کے اس فیصلے کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ دیگر صوبے بھی اس اہم ضرورت کو سمجھنے سے قاصر نہیں رہیں گے۔