• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حالات میں بحیثیت قوم ہم سب پریشان ان بلکہ ڈرے ہوئے ہیں۔ موت کے خوف نے ہر کسی کو خوفزدہ کیا ہوا ہے۔ موت سے بچنے کے لیے نت نئے طریقے بتائے جارہے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں ان پر عمل درآمد بھی کر رہے ہیں۔ جن میں مختلف وظائف ، سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ،حفاظتی اقدامات اور جڑی بوٹیوں سے لے کر مختلف طریقے موجود ہیں۔ لیکن کیا بحثیت مسلمان "ہمارا ایمان موت سے بچنا" ہے یا موت کو اٹل جان کر اچھے اعمال کرنا تاکہ آخرت کی زندگی جو ہمیشہ رہے گی اس میں اچھی حالت میں رہیں؟ لیکن افسوس ہم غیروں کی پالیسی کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے social distancing یعنی سماجی فاصلے کے اصول پر تو عمل کر رہے ہیں لیکن آخرت کی فکر یعنی اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے موت سے بچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اعمال درست کرنے کا قطعا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جائے نماز بچھا کر تسبیح پکڑ لیں اور دنیا سے لاتعلق ہوجائیں۔ بلکہ دنیاوی معاملات درست کریں جو کہ یقینا اچھی آخرت کی زندگی کے لئے ضروری ہے لیکن حقیقتاً ہو کیا رہا ہے؟ منافع خوری اپنے عروج تک پہنچی ہوئی ہے۔ ایک معمولی سا ماسک جس کی لاگت بمشکل ایک روپیہ بھی نہ ہو گی 25 سے 30 روپے کا بک رہا ہے۔ کورونا کا ٹیسٹ جو کہ بمشکل ہزار روپے سے کم میں ہوسکتا ہے آٹھ سے پندرہ ہزار روپے میں ہو رہا ہے۔ لاک ڈاون میں لوگوں نے اجناس کا ذخیرہ کرنا شروع کیا تو ہر شہ کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی۔ رمضان آتے آتے دگنی سے زیادہ ہوگی۔ کیا یہ نا انصافی اعمال بد کے زمرے میں نہیں آتی؟ مرنے سے ابھی بچ بھی گئے تو کیا ہوا انجام تو موت ہی ہے۔ کیا اعمال نامہ لیکر جائیں گے؟ لاک ڈاؤن میں ہم لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور مال کما رہے تھے۔ دوائیوں کی کمپنیاں جن کا کاروبار اس دور میں "آئی ٹی کمپنیوں" کے بعد سب سے زیادہ عروج پر رہا ان کے ایمان کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو اس یقین کے ساتھ بھرپور رشوت دیتے ہیں کہ جب وہ اپنے مریضوں کو انہی مخصوص دوائی کمپنیوں کی دوائی لکھ کر دیں گئے تب ہی ان دوائی کمپنیوں کو خاطر خواہ منافع ہوگا۔ ورنہ اتنا زیادہ سرمایہ research and development میں لگانے کے باوجود ڈاکٹروں کی مدد کے بغیر انکا کاروبار نہیں چل سکتا۔ یوں ڈاکٹروں پہ اٹھنے والے اخراجات بھی دوائی کی قیمت میں شامل کردئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ادویات مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں۔ کچھ اسی قسم کے حالات تقریبا تمام اداروں میں ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان ساری بے قاعدگیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے لیے قانون بھی موجود ہے اور ادارے بھی موجود ہیں۔ لیکن افسوس ان اداروں نے بجائے ان بےقاعدگیوں کو کنٹرول کرنے کے انہوں نے بھی اسے اپنا ذاتی منافع کمانے کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے۔ پرائس کنٹرول اتھارٹی جو کے یقینی طور پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے بنائی گئی مگر افسوس اس کا عملا موجود کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر شخص اور ہر کاروباری اپنی من مانی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ قیمتیں ہیں کہ بڑھتی چلی جارہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا مرنے کہ بعد ان سے سوال نہیں ہوگا کورونا سے بچ بھی گئے تو؟اس لاگ ڈاون میں متعدد سڑکوں کی استرکاری کی گئی ۔ اس کا معیار دیکھ کر آپ کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے۔ ایک دفعہ پانی پڑنے کی دیر ہے سب ختم ۔ کیا ان سڑک بنانے والے ٹھیکیداروں کو "قدرت نے چھوٹ" دی ہوئی ہے؟ کورونا سے مرنے سے بچنا ہے مگر ملاوٹ کرکے ناقص سڑک بنا کر کئی بنی نوع انسان کو اذیت دینی ہے۔ کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہیں ۔حالانکہ کوالٹی کنٹرول کا ادارہ موجود ہے۔ اب ذرا کوئی ان سے پوچھے کہ انہیں کس چیز کی کوالٹی کنٹرول کرنی ہے اپنے منافع کی یا عوامی خدمت کی؟ ڈاکٹرز عوام کی خدمت کے لئے موجود مگر جن اسپتالوں میں وہ مریضوں کو دیکھتے ہیں وہ ان اسپتالوں کے منافع کے لئے بلکہ منافع کو بڑھانے کے لئے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتے ہیں۔ ایک مریض جو اپنی ایک بیماری لے کر اسپتال آتا ہے لیکن اسپتال کے فائدے کے لئے اس ڈاکٹر کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں موجود تمام بیماریوں کے ٹیسٹ اس مریض کے کروائے اور مریض کو یقین دلایا جائے کہ یہ اس کے صحت یاب ہونے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بغیر بھی مریض صحت یاب ہو سکتا ہے۔ ایسے میں قربانی کا بکرا کون اور پیسہ بنانے کا ذریعہ کون اور مسیحا کون۔اسی طرح بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تعمیرات کے معیار کو کنٹرول کرتی ہے ۔ تاکہ کسی قسم کے حادثات سے بچا جا سکے۔ لیکن افسوس یہ ادارہ بھی ذاتی منافع کمانے میں لگا ہوا ہے اور تھوڑے سے پیسے کی خاطر اپنا کام ایمانداری سے نہیں کررہا اور مضبوط اور معیاری تعمیرات کے بجائے غیر معیاری تعمیرات کو ہونے دے رہا ہے۔ جس سے آئے دن حادثات عمل میں آ رہے ہیں جس کی تازہ مثال کچھ دنوں پہلے پانچ منزلہ عمارت کا گرنا تھا۔ موت کے خوف کے باوجود بھی اس ادارے کے لوگوں میں اپنے اعمال کی درستگی کا کوئی خوف پیدا نہیں ہوا۔ بالکل اسی طرح میں اینٹی اینکروچمنٹ سیل جس کا کام تمام سرکاری اراضی اور نجی اراضی پر غیر قانونی قبضہ کو روکنا ہے۔ یہ بھی چند پیسے کی خاطر لوگوں کو قبضہ کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں ۔ بلکہ قانون شکنی سے بچنے کے لئے اس کا توڑ بھی دیتے ہیں۔ جس سے شہروں اور علاقوں کا حسن متاثر ہو رہا ہے اورمسائل جنم لے رہے ہیں ۔ ان کا بھی کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اسی طرح کی لاتعداد اور اداروں کی مثالیں موجود ہیں۔ آخر میں یہی کہا جاسکتا ہےکہ کورونا سے ڈرنا ہے، کورونا سے بچنا ہے، کورونا سے لڑنا ہے موت کو شکست دینی ہے۔ یا اللہ سے اپنی برے اعمال و افعال کی معافی مانگنی ہے اور آئندہ ان سے بچنا ہے انہیں ہونے سے روکنا ہے۔ یہ بات ایک مولانا صاحب نے کی کہ کچھ بھی وظائف کر لیں آپ کوئی بھی احتیاطی تدابیر کرلیں کرونا کا مرض آپ کو لگے گا اگر آپ کے اعمال درست نہیں ہوئے تو یہ وبا آپ سے رخصت نہیں ہوسکتی رب کی ناراضگی کو سمجھئیے اس کو راضی کرنے کی کوشش کریں ۔ اس لئے بندوں کے آسانیاں پیدا کریں مشکلات نہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین