• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایم کیوایم کے فاروق ستار ”جیو“ کے پروگرام الیکشن سیل میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق اور پولنگ کے انتظامات کی حمایت کرتے رہ گئے مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے بیرونی ممالک میں آباد پاکستانیوں کیلئے ووٹنگ کے انتظامات کرنے کی مخالفت کردی، جواز یہ دیا گیا ہے کہ غیرآزمودہ الیکٹرانک ووٹنگ کا سسٹم استعمال کرنے سے ملک کے انتخابی عمل کو شدید نقصان بلکہ تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ ایم کیوایم تو اوورسیز پاکستانیوں کیلئے حمایتی بیانات دیتی رہی ہے اور گزشتہ انتخابات میں اوورسیز میں مقیم اپنے چند دیرینہ اراکین کو صوبائی اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ بھی دیئے تھے مگر تمام دوسری پارٹیاں تو اوورسیزپاکستانیوں کے حق ووٹ کے بارے میں یکساں خاموشی اور لاتعلقی ظاہر کررہی ہیں۔ غیرآزمودہ عمران خاں اور ان کی تحریک انصاف بھی چند بیانات میں اوورسیزپاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں بات کرنے کے بعد اب وہ بھی الیکشن کمیشن کی مرضی کے ساتھ راضی ہوتے اور خاموش دکھائی دیتی ہے حالانکہ پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی سمیت تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے غیرممالک میں اپنے دورے کی صورت میں ایئرپورٹوں پر استقبال، سیر و تفریح اور مصروفیات میں کاریں اور خدمات حاصل کرنے، مفت تحائف وصول کرنے اوراستقبالیہ عشائیے اور میزبانی کا لطف اٹھانے کیلئے ان تمام ممالک میں اپنی پارٹیوں کی شاخیں بھی قائم کر رکھی ہیں جن کے عہدیدارانہی اوورسیز پاکستانیوں میں سے ہوتے ہیں جو ان لیڈروں کی غیرممالک میں آمد کے دوران چند تصاویر کھنچوا کر خوش ہوجاتے ہیں اور پھر ان لیڈروں کا دورہ ختم ہونے کے بعد اپنے ہی دیگرساتھیوں کے ساتھ اختلاف اور ناراضی میں الجھ جاتے ہیں کہ انہیں لیڈر کے ساتھ تصاویر کھنچوانے کا زیادہ موقع نہیں دیا گیا۔ جب یہ سیاسی لیڈر یہاں امریکہ میں آتے ہیں تو اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی، پاکستان کی قومی ترقی میں مثبت کردار اور بیرون پاکستان ان کو سفیر پاکستان قرار دیتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی لیکن اب پہلی مرتبہ جب اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو استعمال کرنے کیلئے ان سیاسی قائدین اور پارٹیوں کی عملی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے مجرمانہ انداز میں خاموشی اور لاتعلقی اختیار کرلی حتیٰ کہ خود پی پی پی امریکہ کا ایک جیالا صدر آصف زرداری کی ہدایت پر امریکہ میں رہائش ترک کرکے پاکستان میں سیاسی تقرری پر اس وقت نادرا کے چیئرمین طارق ملک ہیں جو اب سیاسی جانبداری اور پارٹی کے مفاد کے لئے تو نادرا کا تمام ڈیٹا بڑے بھرپور انداز میں استعمال فرما رہے ہیں مگر اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور معاملات اور اپنے تجربے کو بھول کر صرف اپنی پارٹی کے مفاد کی خاطر اوورسیزپاکستانیوں کے ووٹ کیلئے انتظامات اور حمایت سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے تو بے نظیر شہید کے سامنے بھی خود کو اوورسیزپاکستانی کے طور پر انتہائی مستحق اور انتہائی اہل ہونے کی وکالت کی تھی اب وہ یہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پی پی پی کو تو عدلیہ کے احکامات اور فیصلوں سے چڑ اور ضد ہے لہٰذا اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ووٹنگ کے انتظامات کے بارے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کو ناکام اور مذاق بنا کر رکھنے کی مشن میں یہ ایک مفید اور موثر موقع ہے جہاں45 لاکھ ووٹروں کے حق ووٹ پر عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے اور مسائل پیدا کرنے کا منفرد موقع ہے جس پر ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی کوئی اعتراض دکھائی نہیں دیتا ۔ مختصر یہ کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو عملی جامہ پہنانے سے انکار کی وجہ انتظامی یا عملی مشکلات نہیں بلکہ خالصتاً سیاسی وجوہات ہیں۔ اوورسیز پاکستانی نسبتاً خوشحال ، تعلیم یافتہ اور سوالات اٹھانے والے بے باک اور بہتر معلومات رکھنے والے شہری ہیں۔ غیرملک میں مزدوری کرنے والا نیم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ پاکستانی بیرونی دنیا میں زندگی گزارنے کے باعث حقائق سے زیادہ باخبر ہے لہٰذا اسے اگر ووٹ ڈالنے کا بھرپور موقع دیا گیا تو وہ پاکستان کو ووٹ دے گا اور لیڈروں سے ذاتی وفاداری کے بجائے مسائل کو فیصلے کی بنیاد بنائے گا لہٰذا ایسے ووٹروں کی حمایت کرنے میں وقت لگانے کے بجائے پاکستان میں انتخابی حلقوں میں دھڑے بندیوں،جاگیرداروں، فصلی اور موقع پرست سیاستدانوں کے ساتھ سودے بازی اور عام ووٹر کی وقتی خوشامد پر وقت لگایا جائے تو بہتر ہوگا لیکن یہ سیاستدان یاد رکھیں کہ انہیں انتخابی ہار جیت کے بعد بھی برطانیہ ، امریکہ اور کینیڈا بھی آنا ہوگا۔ ویسے بھی اب غیرممالک میں اپنی پارٹیوں کی شاخیں کھولنے اور رکھنے کا جواز ان لیڈروں کے پاس کیا رہ گیا؟ پاکستان کو سالانہ12/ارب ڈالر فراہم کرنے والے یہ اوورسیز پاکستانی اگر احساس محرومی پیدا کرنے والے ایسے فیصلوں کے ردعمل میں کوئی تحریک یا اقدام کرتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ جب سے سپریم کورٹ نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کیلئے ہدایات جاری کی تھیں اسی وقت سے اس ہدایت پر عمل نہ ہوسکنے کی اطلاعات بھی سامنے لائی جارہی تھیں مگر اب تو بزرگ الیکشن کمشنروں کی چھتری تلے سرگرم نوجوان سیاسی جانبداری کے جذبات سے لیس ہو کر اپنا اپنا کام اور مقصد کیلئے مصروف عناصر نے الیکشن کمیشن کی جانب سے مخالفت بھی حاصل کرلی ہے لہٰذا غیر ملکوں میں آباد پاکستانیوں کو اپنے ووٹ ڈالنے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ جس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ووٹ کا الیکٹرانک استعمال کرنے میں ”پورے انتخابی عمل کی تباہی“ کا خطرہ ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ جواز درست ہے تو پھر کیا نادرا کا شناختی کارڈ اور مشین ریڈایبل پاسپورٹ کانظام واقعی محفوظ ہے؟متعدد غیرممالک پاکستانی عوام کا ڈیٹا حاصل کرنے کا مطالبہ بھی کرچکے اور وہ دیگر طریقوں سے بھی حصول کیلئے ہیکروں اور دیگر طریقوں سے مصروف کار ہیں اور اگر اس آن لائن نظام کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے تو پھر آن لائن ووٹنگ دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ ہم بھی اس سے استفادہ کرلیں توکیا برائی ہے۔سیاسی مقاصد کو فنی مجبوریوں کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرنا ٹھیک نہیں۔ بجلی کے بحران کی طرح اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
تازہ ترین