• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سے موصول ہونے والی ای میلز میں ترکی سے متعلق مختلف سوالات پوچھے گئے ہیں جن میں سے چند ایک سوالات کچھ یوں ہیں۔ سیکولرازم کے مضبوط قلعے ترکی میں ایک اسلای جماعت کیسے اور کیونکر برسر اقتدار آئی اور یہ اسلامی جماعت پاکستان اور عرب ممالک کی اسلامی جماعت سے کیونکر مختلف ہے اور اس کے رہنما اپنی اس جماعت کے اسلام پسند ہونے کے باوجود کیونکر مغربی لباس زیب تن کرتے ہیں اور پاکستان اور عالم عرب کی طرز کا اسلامی شعار اور رہن سہن دکھائی نہیں دیتا ہے لیکن اس کے باوجود عالم اسلام میں حکومت ترکی اور اس کے رہنما رجب طیب ایردوان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب تمام اسلامی ممالک کی نظریں کیونکر ترکی پر مرکوز ہیں؟
قارئین کے یہ سوالات بڑی دلچسپی کے حامل ہیں اور اِن سوالات سے اُن کی ترکی میں کس قدر دلچسپی لینے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ میں نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ پاکستان اور کچھ حصہ ترکی میں گزارا ہے اور اب مستقل طور پر ترکی میں قیام پذیر ہونے اور ایک صحافی ہونے کے ناتے ترکی، عرب ممالک اور پاکستان میں اسلامی طزر زندگی کے بارے میں موجود فرق سے متعلق کافی حد تک آگاہی رکھتا ہوں اور ان سوالات کا جواب بھی اسی تناظر میں دینے کی کوشش کروں گا۔ مذہب اور اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے پاکستان عرب ممالک کے مقابلے میں ترکی کے قریب ہے یہ دونوں اسلامی سوچ، خیالات اورتعلیمات کے لحاظ سے کم و بیش ایک جیسے ہی نظریات رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ترکی کی طرح زیادہ تر لوگ سنّی عقیدے پر ہی عمل کرتے ہیں اور پاکستان میں اور ترکی دونوں ملکوں میں اولیائے کرام کا بے حد احترام کیا جاتا ہے اور ترک ماضی یعنی سلطنت عثمانیہ کے دور سے لے کر اب تک مذہبی رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں اسی قسم کا رویہ ہمیشہ پاکستانی قوم نے بھی اپنائے رکھا ہے لیکن ضیاء الحق دور میں بعض عرب ممالک کے اثر سے پاکستان میں مذہب سے متعلق سوچ اور نظریات میں شدت پسندی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ یہاں پر میں یہ عرض کردوں کہ ترکی کی یہ جماعت پاکستان کی کسی بھی مذہبی جماعت سے کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں رکھتی اور نہ ہی ترکی کی اس جماعت کو پاکستان کے طرز کی اسلامی جماعت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے اخبارت اور کالم نگار بھی اس جماعت کو اکثرو بیشتر اسلامی جماعت ہی قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ جماعت اپنے آپ کو سیکولر جماعت کہلوانے پر فخر محسوس کرتی ہے تاہم اس جماعت کا اور ترکی کی دیگر سیاسی جماعتوں کے سیکولر ازم میں بڑا نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ ترکی کی تمام جماعتیں بشمول برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کے سیکولرازم کو اپنے منشور کا حصہ بنائے ہوئے ہیں البتہ ان پارٹیوں اور آق پارٹی کے سیکولرازم میں فرق یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں زیادہ تر نام نہاد اور یکطرفہ سیکولرازم کا پرچار کرتی رہی ہیں جبکہ برسراقتدار آق پارٹی سیکولرازم کو مذہبی معاملات میں بالکل غیر جانبدار رہنے اور ملک کے تمام مذہبی حلقوں اور گروپوں میں کسی قسم کا امتیاز کئے بغیر تمام حقوق فراہم کرنے ہی کو سیکولرازم قرار دیتی ہے اور اس نظام ہی کو ملک کا بہترین نظام قرار دیتی ہے۔ترکی کی موجودہ حکومت جسے پاکستان میں اسلامی حکومت قرار دیا جاتا ہے ملک میں سیکولرازم پر اس کی اصل روح کے ساتھ عملدرآمد کی خواہاں ہے۔ ترکی میں جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے سیکولر ازم پر عملدرآمد کیا جاتا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ عملدرآمد سیکولرازم کے نام پر دھبہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے جس میں مذہب کو ہمیشہ ہی ظلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور سیکولرازم کے نام پر کئی ایک مساجد کو اصطبلوں میں تبدیل کردیا گیا اور عربی زبان میں اذان دینے پر بھی پابندی لگادی گئی اور پھر ہیڈ اسکارف پہننے والی اور مذہبی لگاؤ رکھنے والی لڑکیوں کو سیکولرازم کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے ان پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیئے گئے جس پر ملک کے مذہبی حلقوں نے شدید ردِعمل کا ظاہر کیا اور ان کے اس شدید ردِ عمل کی وجہ سے ایردوان کی آق پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ ایردوان نے مذہبی حلقوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ برسراقتدارآنے کی صورت میں ملک میں صحیح طریقے سے سیکولرازم پر عملدرآمد کراتے ہوئے ہیڈ اسکارف کی پابندی کو ختم کرادیں گے اور برسراقتدار آنے پرانہوں نے سب سے پہلے ایسا ہی کیا اور ہیڈ اسکارف پر سے پابندی ہٹاتے ہوئے اسلام پسند لڑکیوں کے لئے یونیورسٹیوں کے دروازے کھول دیئے۔
پاکستان میں سیکولر ازم کے بارے میں بڑے منفی خیالات پائے جاتے ہیں اور سیکولرازم کو مذہب اسلام سے متضاد اور لادین( جس کا کوئی مذہب نہ ہو) کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور ہمارے کئی کالم نگار بھی اس کی بھرپور طر یقے سے مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ترک وزیراعظم ایردوان کو پاکستان اور عالم عرب کے عوام ایک اسلامی جماعت کے رہنما قرار دیتے ہیں خود سیکولرازم کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور انہوں نے کئی مواقع پر ( اپنے دورہ مصر کے دوران بھی) اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو بھی اپنے اپنے ملک میں سیکولرازم متعارف کرانے کی تلقین کی ہے تاکہ انتہا پسندی کو روکا جا سکے اور اس کے نقصانات سے بچا جاسکے اور مذہب ِ اسلام جس میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کی بنیاد رواداری کا پرچار کرتے ہوئے اس پر عمل کرانا ہے۔
ترکی میں جس طریقے سے اسلام پر عمل کیا جاتا ہے شاید ہی کسی دیگر اسلامی ملک میں اسلام کی اصلی اور صحیح روح کے مطابق اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہو۔ اس سلسلے میں ایک مثال پیش خدمت ہے جس سے ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان مذہب سے متعلق پائے جانے والے فرق کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔راقم طویل عرصے تک انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے منسلک رہا ہے۔ اس دور میں میری شام کو بھی کلاسز ہوا کرتی تھیں اور ماہ رمضان میں شام کے وقت کلاسز ہونے کے دوران کئی بار افطار کا وقت بھی آجاتا تھا لیکن کبھی بھی ایسا نہ ہوا تھا کہ افطاری کی وجہ سے وقفہ دے دیا گیا ہو بلکہ اس دوران جس طالب علم یا طالبہ نے روزہ رکھا ہوا ہوتا تھا وہ مغرب کی اذان کی آوازسنتے ہی جیب سے ٹافی یا چاکلیٹ وغیرہ نکال کر روزہ کھول لیا کرتا تھا اور کسی کو کان و کان خبر بھی نہ ہوتی اور ایک اسٹوڈنٹ کسی دیگر اسٹوڈنٹ کو تنگ کئے بغیر روزہ کھول لیا کرتا۔ اسی طرح ماہ رمضان میں بس میں سفر کے دوران افطار کے وقت اگر اذان ہو رہی ہو تو بس ڈرائیور جیب سے کھانے پینے کی کوئی چیز نکال کر اپنا روزہ کھول لیتا اور بس کو روکے بغیر اپنے سفر کو جاری رکھتا تاکہ مسافروں کا وقت ضائع کئے بغیر ان کو ان کی منزل مقصود تک پہنچا دے۔ کیا اسلام ہمیں ایسا ہی کرنے کا درس نہیں دیتا؟ کیا یہی اسلام کی اصل روح نہیں ہے؟ ہمارے ہاں تو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔
تازہ ترین