• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور کوشش کے باوجود بھی الفاظ کی ادائیگی اس کے لئے مشکل ہورہی تھی شدید مالی نقصان،صدمے اور بدنامی کے خوف نے میرے اس دوست کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر شدید متاثر کیا تھا، مجھ سمیت اس کے حلقہٴ احباب میں شامل کئی اور لوگ بھی اس کی مدد سے قاصر تھے۔ جی نہیں میرے اس دوست نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی عدالت نے اسے سزا سنائی تھی۔ ایک سیاسی کارکن تھا جس نے اپنی جماعت کے لئے کافی قربانیاں بھی دے رکھی تھیں اور ان قربانیوں کو اس کی سیاسی جماعت نے کئی اہم مواقع پر تسلیم بھی کیا تھا اور یہی وہ وجوہات تھیں جن کے باعث پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے میرے اس دوست کو پارٹی میں مرکزی سطح پر اعلیٰ عہدے سے بھی نوازا لیکن اس وقت جس تکلیف ، صدمے اور مالی نقصانات کے اندیشوں کا میرے دوست کو سامنا تھا وہ اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں پارٹی قیادت کی جانب سے میرے دوست کو قومی اسمبلی کے لئے انتخابی ٹکٹ دیئے جانے سے انکار تھا اور پارٹی کی قیادت کے اس اچانک اور غیر متوقع فیصلے نے جہاں مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو حیران کیا ،وہیں میرے دوست کے اوپر صدمے کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے جس نے صرف گزشتہ ڈیڑھ سال کے اندر اپنے حلقے میں الیکشن جیتنے اور پارٹی کی مرکزی قیادت کے دل جیتنے کے لئے آٹھ کروڑ روپے پانی کی طرح بہا دیئے تھے لیکن جب انتخابات کے ٹکٹوں کیلئے پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے انٹرویو میں مرکزی قیادت نے میرے دوست کو آگاہ کیا کہ آپ کا رتبہ ایم این اے اور ایم پی اے سے بڑھ کر ہے تو میرے اس سیاستدان دوست کا سر فخر سے بلند ہو گیا اس کو یقین ہو گیا تھا اس کی قربانیوں کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور اب اسے ٹکٹ جاری کئے جانے کا اعلان ہوگا لیکن پارٹی قیادت کے اگلے الفاظ بم کی طرح اس کی سماعت سے ٹکرائے لیکن قومی اسمبلی کے اس ٹکٹ کیلئے آپ سے زیادہ موزوں امیدوار کوئی اور ہے لہٰذا آپ پارٹی کے مفاد میں اس دفعہ الیکشن لڑنے سے گریز کریں ۔
مرکزی قیادت کے اس مشورے نما فیصلے سے میرے دوست کا دل صدمے سے کرچی کرچی ہو چکا تھا، وہ تو یہ بھی نہیں پوچھ سکا کہ قائد محترم صرف ڈیڑھ سال قبل مجھ سے تو آپ نے ہی قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کیلئے کہا تھا جس کے بعد میں نے اپنا تمام کاروبار اپنی اہلیہ کے سپرد کر کے گزشتہ ڈیڑھ سال سے اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے جبکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے حلقے میں موجود میرے مہمان خانے میں ہر روز الیکشن کی تیاری کے لئے جمع ہونے والے تقریباً پانچ سو سے ایک ہزار پارٹی ورکروں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جارہا ہے جہاں ہر روز اوسطاً ایک لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں جبکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں میرے حلقہٴ احباب کو میں آپ کی کمٹمنٹ کے بعد یہ بتا چکا ہوں کہ قائد محترم نے مجھے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کر لیا ہے اور اگلے الیکشن میں قومی اسمبلی کیلئے میں ہی پارٹی کا نمائندہ ہوں لیکن اب ٹکٹ نہ دیئے جانے کے اس فیصلے کے بعد میں کس منہ سے لوگوں کا سامنا کروں گا، بہرحال میرے دوست کو پارٹی سے بیس سالہ رفاقت کا صلہ مرکزی قیادت نے ٹکٹ نہ دیئے جانے کے اس فیصلے کی صورت میں دے دیا تھا جسے ہر صورت قبول کرنا ہی پارٹی سے وفاداری اور پارٹی نظم وضبط کا تقاضا ہے۔اب سے دوبرس قبل تک میرے لئے بھی یہ اندازہ لگانا بھی مشکل کام تھا کہ میرا دوست قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن ایک روز جب مجھے بذریعہ ای میل اپنے دوست کی کچھ تصاویر موصول ہوئیں جس میں میرا دوست اپنے قائد محترم کو پارٹی فنڈ کیلئے ذاتی طور پر ایک کروڑ روپے پیش کر رہا ہے تو مجھے تھوڑا بہت اندازہ ہو چکا تھا کہ اب الیکشن کے ٹکٹ کے حصول کی باقاعدہ تیاری شروع ہو چکی ہے، جس کے کچھ عرصے بعد پارٹی سیکریٹریٹ کی تیاری کے لئے ایک بار پھر ہمارے دوست نے پارٹی قیادت کو ڈیڑھ کروڑ روپے پیش کئے تو مجھے یقین ہو چکا تھا موصوف آدھا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میرا خیال اس وقت سچ بھی ثابت ہو گیا جب کچھ عرصے بعد قائد محترم کے ساتھ میرے دوست کی ایک تصویر پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئی جس کے حوالے سے مجھے بتایا گیا کہ یہ وہی تاریخی ملاقات تھی جس میں قائد محترم نے دوست محترم کو ٹکٹ فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے حلقہ میں تیاری کا حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے بعد علاقے کے لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ ہمارے دوست محترم انتخابات سے قبل ہی ایم این اے بن گئے ہیں۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ حلقے میں مہمانوں کی بیٹھک پر ہر روز پانچ سو سے ایک ہزار آدمیوں کے لئے کھانے کا انتظام گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری تھا جبکہ ہمارے دوست محترم کے مطابق وہ حلقے میں انتخابات کی تیاری کے لئے اوسطاً ایک لاکھ روپے خرچ کرتے رہے ہیں اس حساب سے گزشتہ ڈیڑھ سال میں وہ حلقے میں ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ روپے پارٹی فنڈ میں دے چکے ہیں لہٰذا ان ڈیڑھ سالوں میں وہ اپنی جمع پونجی سے آٹھ کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں اور پارٹی قیادت نے ان تمام معاملا ت سے باخبر ہونے کے باوجود ان کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا ہے اور اسی بات نے ہمارے دوست کو شدید ذہنی اور جذباتی صدمہ پہنچایا ہے کیونکہ ہمارے اس دوست کا تعلق جاپان سے ہی ہے لہٰذا جاپان میں بھی ان کے دوستوں کو ہمارے دوست کو پارٹی ٹکٹ نہ دیئے جانے پر سخت افسوس ہے لیکن پارٹی قیادت کے فیصلے پر سرتسلیم خم کرنا ہی پارٹی سے وفاداری کا تقاضا ہے تاہم پارٹی کے جاپان میں نگراں ملک نور اعوان پارٹی قیادت کے اس فیصلے کے فوراً بعد پاکستان پہنچے اور اپنی پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت سے ملاقات کر کے ان کو فیصلے پر پارٹی کارکنوں کے خدشات سے آگاہ کیا لیکن شاید وہ بھی اپنی کوشش میں ناکام نظر آتے ہیں جس کے بعد انہوں نے اب ہمارے دوست محترم کو پارٹی قیادت کے فیصلے کے حق میں منانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں جس سے شاید اب امید ہے کہ آٹھ کروڑ میں کم سے کم جاپان واپسی کا ٹکٹ تو مل ہی جائے گا۔قارئین کرام یہ کالم حقائق پر مبنی ہے تاہم الیکشن کے دنوں میں کسی سیاسی جماعت پر اثر انداز ہونے سے بچنے کے لئے اس کالم کے مرکزی کردار یعنی دوست محترم اور مذکورہ سیاسی جماعت کا نام لکھنے سے گریز کیا گیا ہے تاہم قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں ایک غریب آدمی کے لئے تو الیکشن لڑنا ہی مشکل ہے جبکہ ایک امیر آدمی آٹھ کروڑ بھی خرچ کر کے اپنے لئے ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہے اس صورتحال میں تبدیلی اور انقلاب کے نعرے صرف نعرے ہی لگتے ہیں۔
نوٹ:۔قارئین میں اپنے 15 نومبر2012ء اور 9 جنوری کے کالموں جس میں، میں نے اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا، سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر میں اعلیٰ عدلیہ کا شکرگزار ہوں جس کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے جبکہ 30 جنوری کے اپنے کالم جس میں جاپان اسپیشل اکنامک زون پر قبضہ گروپ کے حوالے سے مسئلے کو اجاگر کیا گیا تھا پر سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین زبیر موتی والا کا شکر گزار ہوں جنہوں نے جاپان اسپیشل اکنامک زون پر سے قبضہ گروپ کے خاتمے کے لئے ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کیا جبکہ اپنے 20مارچ کے کالم جس میں تھلیسیمیا کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا جس پر موجودہ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ زاہد قربان علوی نے عنقریب شادی سے پہلے تھیلیسیما کا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا آرڈیننس لانے کا اعلان کیا ہے، پر میں نگراں وزیر اعلیٰ سندھ زاہد قربان علوی کا بھی ممنون ہوں۔
تازہ ترین