• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ خیر کرے، عالمی وبا اور جاری سنگین قومی معاشی بحران میں گھرے پاکستان کے حالات حاضرہ کا ہر موضوع ہمارے بیمار قومی رویے کا پتا دے رہا ہے۔ منتخب قیادت کی مسلمہ دیانت اور غریب عوام سے مصدقہ ہمدردی کے ساتھ مشیروں اور ترجمانوں کی ’’معاونت‘‘ سے گھڑی مایوس کن گورننس، کرپشن کے جاندار الزامات میں لتھڑی جمبو سائز اپوزیشن، اسٹیل ملز، پی آئی اے، نظام ہائے تعلیم و صحت کی بربادی کا ماتم، نیب کورٹ کے جج صاحب اور نیب ہی کے چیئرمین کی متنازع وڈیو اور کالمی انٹرویو سے وزیراعظم کے پسندیدہ احتسابی عمل کے اعتبار و وقار میں کمی، حتیٰ کہ احتسابی ادارے کو میڈیا کے خلاف استعمال کرنے کے واضح شبہات، اور تو اور عوام کی تنگ دستی میں اضافہ کر کے چینی کی پیداوار پر ارب ہا کی سبسڈی اُڑانے اور اِس وزیراعظم کے بااعتماد ساتھیوں کے ہاتھ رنگنے اور افسر شاہی کے مکارانہ عدم تعاون کا تسلسل کے موضوعات اپنے فالو اَپ کے ساتھ میڈیا کے خبری اور تجزیاتی ایجنڈے میں واضح حاوی ہیں۔ اتنے کہ 10ماہ سے محصور کشمیریوں کے جان ہتھیلی پر رکھ کر بپھر کر گھروں سے باہر نکل آنے اور ان کے خلاف مودی کی بدترین عسکری دہشت گردی فقط جنگ سے بچے رہنے والی خبری کوریج سے آگے نہیں بڑھ رہی، حتیٰ کہ چین۔ بھارت سرحدی تنازع میں ہمارے بدترین دشمن کے خلاف یارِ غار نے جو کم سے کم اور نرم سے نرم کارروائی سے زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹنے والی پاکستان کی گہری دلچسپی کی خبروں کو بھی میڈیا میں وہ کوریج نہیں مل رہی جو پیشۂ صحافت کا بنیادی تقاضا ہے۔

حالات حاضرہ کے اس گنجلک اور پریشان کن پیش منظر میں، تبدیلی حکومت میں جگہ بنانے میں کامیاب روایتی سیاسی فنکاری اور افسر شاہی، پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے خلاف بے نقاب ہو جانے والے گٹھ جوڑ سے جامعات پر گھات ہی نہیں لگا چکی، بلکہ اپنے تراشے راہِ بد پر ابتدائی قدم بھی اٹھا رہی ہیں۔

خبر یہ ہے کہ صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں پر سدا سے گھات لگانے والی صوبے کی افسر شاہی ایک بار پھر پنجاب حکومت کے متعلقہ سیٹ اپ میں اسٹیٹس کو کی سوچ اور اپروچ کے حاملین کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے جامعات کو ’’منافع کاپوٹینشل ذریعہ‘‘ سمجھتے ہوئے نہ صرف ایک بار پھر مشترکہ ہدف بنا چکی ہے بلکہ اب تو شکار کرنے کے لئے ان کی رال بھی ٹپک رہی ہے۔ افسر شاہی نے ’’وزیر باتدبیر‘‘ کی اشیرباد سے وائس چانسلر کی تقرری کی شرائط تبدیل کر کے بیوروکریٹ اور ریٹائرڈ جج کو بھی وی سی مقرر کرنے کیلئے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیمی قانون کامسودہ تیار کیا ہے۔پنجاب یونیورسٹی پنجاب ہی نہیں ملک بھر کی پبلک یونیورسٹیوں کی مدر یونیورسٹی ہے اوراس کی فیکلٹی ہمیشہ چوکس رہی ہے کہ صوبے کی روایتی سیاسی منتخب حکومتیں اور آمرانہ ادوار کی غیر آئینی حکومتوں کی سیاسی بیساکھیاں بننے والے سیاستدان اپنے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اہداف کے حصول کے لئے شرمناک خود غرضی سے ان جامعات کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے یا کم از کم ان میں زیادہ سے زیادہ اپنی ’’قانونی مداخلت‘‘ کی جگہ بنانے کے لئے جو گھات لگائے رہتے ہیں، اس کی راہ میں یہ فیکلٹی سب سے بڑی مزاحمت بنتی ہے۔ اس کی تازہ ترین سکت کو ٹیسٹ کرنے کے لئے ہر کچھ عرصہ کے بعد ایک دو پتھر پھینکے جاتے ہیں، پھر محتاط جائزہ لیا جاتا ہے کہ ایک دو قدم اور بڑھانے ہیں یا ابھی گھات میں ہی رہنا ہے یا واپس پلٹنا ہے۔ اس کا فیصلہ فیکلٹی کے فیصلے پر ہوتا ہے جو فطرتاً اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کے اعتبار سے خود کو یونیورسٹی کی شدت سے مطلوب خود مختاری کی کسٹوڈین سمجھتی ہے، ہمیشہ اس پر چوکس رہتی ہے کہ خود کو عقل کل اور انتظامی امور میں یکتا سمجھنے والی افسر شاہی معمولی گنجائش نکلنے پر بھی یونیورسٹی میں مداخلت کو ممکن بنانے کے لئے قسمت آزمائی ضرور کرے گی۔

اس حوالے سے افسر شاہی ہمیشہ روایتی منتخب نمائندوں کی آڑ میں ہی نہیں بلکہ ہاتھ ملا کرکے پکا کام کرنے کی ’’حکمت‘‘ بھی اختیار کرتی ہے کیونکہ اس کے بغیر تو دال کسی صورت نہ گلے گی۔ بدقسمتی سے سندھ حکومت نے 18ویں ترمیم کی روح اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس اپنے صوبے میں پہلی صوبائی ایچ ای سی بنا کر اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے قومی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس پر پہلے تو نون لیگ نے مخالفت کی تھی لیکن پھر خود بھی یہی راہ اپنا لی چونکہ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے اس لئے یونیورسٹیوں کی فیکلٹی عدلیہ کے احترام میں فیصلے کی منتظر رہی، انہیں یہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ اسٹیٹس کو کی حکومتتیں اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اب اپنے ہی غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلوں کے مطابق حکومت چلانے کی صلاحیت کی حامل ہو چکی ہیں۔ اس کے مقابل پنجاب یونیورسٹی اکیڈیمک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور کا پبلک یونیورسٹیوں کی خود مختاری غصب کرنے کی تیاری پر افسر شاہی ابتدائی اقدام پر دلائل اور عوامی مفادات کے خلاف مہلک نتائج کے خدشات پر مشتمل احتجاجی بیان میڈیا میں آ چکا ہے جبکہ اطلاع ہے کہ یونیورسٹی اساتذہ کی ملک گیر فیڈریشن اور صوبے کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی منتخب تنظیمیں مزاحمت کی مکمل تیاری میں ہیں۔

وزیراعظم عمران خان، چانسلر و گورنر چودھری محمد سرور، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چودھری فوری متوجہ ہوں کہ اتنے گمبھیر حالات میں اس فتنہ انگیزی کے پس پردہ کیا ہے؟ اس کے لئے انہیں یونیورسٹی اساتذہ کے منتخب نمائندوں کو سننا ہو گا۔

تازہ ترین