• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ میرے پڑوس کا قصہ ہے۔ میرے ہمسایہ کا نام ہمدم ہے۔ بائیں بازو والے مکان میں رہتا ہے۔ اس کی ایک عدد بےحد موٹی بیوی اور بارہ بچے ہیں۔ ہمدم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہم اور اندیشے اسے کبھی نہیں گھیرتے تھے۔ وسوسوں کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ ماضی بےحد قریب تک وہ بڑا ہی نڈر تھا۔ خطرات کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ دو چار ماہ پہلے تک ہمدم مع اپنے بارہ بچوں اور موٹی بیوی کے خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ نہ کسی کے لئے تکلیف کا باعث بنتا تھا اور نہ کسی کا دل دکھاتا تھا۔ میں حکیم یا طبیب قسم کی کوئی چیز نہیں ہوں۔ مولیٰ نے مجھے ایک ہنرسے نوازا ہے۔ میں دال میں کچھ کالا اور کالے میں کچھ دال دیکھ سکتا ہوں۔ ہمدم دو چار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہانپ جاتا تھا۔ میں نے اسے بچوں کے ساتھ بچہ بن کر اچھل کود کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اچھل کود کرتے ہوئے ہانپ جاتا تھا۔ ہمدم اور میں قلندر پارک میں جاگنگ کرنے جاتے تھے۔ ایک عرصہ تک جاگنگ کرتے ہوئے ہمدم مجھ سے بہت آگے نکل جاتا تھا۔ بعد میں اس کی رفتار ڈھیلی پڑنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جاگنگ کرتے ہوئے وہ مجھ سے پیچھے رہنے لگا۔ تشویش مجھے تب ہوئی جب جاگنگ کرتے ہوئے وہ ہانپنے لگا۔ میں نے کئی بار ہمدم سے کہا تھا، دیکھ بھائی ہمدم، مجھے لگتا ہے تجھے دل کا عارضہ ہے۔ میری بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے ہمدم نے کہا تھا: ابے تو کب سے ڈاکٹر ہو گیا ہے؟ جا، جاکر اسٹاک ایکسچینج کے شیئر بیچ۔

یہ تمام باتیں میں اس لئے آپ کو سنا رہا ہوں تاکہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ ہمدم کس قدر بہادر اور نڈر ہوتا تھا۔ کسی خطرے کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ اور تب آمد ہوئی کورونا وائرس کی۔ کسی مرض سے ڈرانے کی ایسی منظم بین الاقوامی بوچھاڑ کی مثال تاریخ میں دور دور تک نہیں ملتی۔ وہ جو ڈرنے کو مرنے کے متبادل سمجھتے تھے، وہ بھی ڈر کے مارے ڈھیر ہو گئے۔ کورونا کے بارے میں ٹیلی وژن چینلز سے لگاتار بھیانک باتیں سنتے سنتے ہمدم کے اوسان خطا ہو گئے۔ مع اپنے بارہ بچوں اور بیوی کے ہمدم گھر میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دروازے کھڑکیاں اور روشندان بند کر دیے۔ آنے جانے پر ہمدم نے مکمل پابندی لگا دی۔ راشن پانی کی ضرورت پڑتی تو مجھے موبائل فون سے کال کرتا اور اشیا کی فہرست لکھوانے کے بعد کہتا: سودا سلف ڈیوڑھی کے قریب رکھ کر فون کرنا۔ ہم اُٹھا لیں گے۔ کئی ہفتوں تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران مجھے ہمدم، ہمدم کی بیوی اور بارہ بچوں کی جھلک تک دکھائی نہ دی۔ آٹھ دس روز بعد ہمدم سودا سلف لے آنے کے لئے مجھ سے دوچار منٹ فون پر بات کر لیتا تھا۔ ایک مرتبہ ہمدم نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا تھا: کورونا وائرس کے جراثیم ٹیلی فون سے ٹرانسمٹ تو نہیں ہوتے؟

میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرے اطراف ملک کے اندر اور ملک سے باہر دیگر ممالک میں کیا ہو رہا تھا۔ مختلف جغرافیائی ماحول کے باوجود کیوں تمام ممالک کورونا سے بچنے کے لئے ایک جیسے اقدامات کر رہے ہیں؟ سب لوگ بار بار صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں، ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں، ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملاتے، ایک دوسرے سے بغلگیر نہیں ہوتے۔ یہ کیسا وائرس ہے جو بےانتہا سردی اور بےانتہا گرمی میں پنپتا ہے؟ کورونا وائرس کے درپردہ دنیا دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ دنیا کے حکمرانوں نے اپنا کنسورشیم بلکہ اپنی پرائیویٹ کمپنی بنا لی ہے۔ دنیا کے تمام حکمراں پھر وہ چاہے ایک دوسرے کے دشمن ہی کیوں نہ ہوں، ایک پیج پر ہیں اور ایک ہی حمام میں نہاتے ہیں۔ ان کے پاس تمام تر ٹیکنالوجی ہے۔ ان کی مٹھی میں نشریاتی اور غیرنشریاتی مواصلات کے مکمل وسائل ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصے میں عوام ہیں، رعیت کہیں جسے۔ رعیت کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لئے حکمرانوں کے پاس نت نئے حربے ہیں۔ حکمراں آگاہ ہیں کہ دو عوامل انسانی رویوں پر حاوی رہتے ہیں۔ وہ دو عوامل ہیں، خوف اور امید۔ خوف یعنی ڈر کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ موت کا ڈر۔ اپاہج ہونے کا ڈر۔ بیماری کا ڈر۔ بےگھر اور مفلس ہونے کا ڈر۔ امید کا دائرہ محدود ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویکسین تیار ہونے والی ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دولتمند ممالک ہماری امداد کرینگے۔ ہم نے جو ان سے قرض لیا ہے، وہ وصول نہیں کریں گے۔ سب ٹھیک ہو جائیگا۔ ہم مصیبتوں کے دلدل سے نکل آئیں گے۔

ہم رعایا نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے مگر دنیا کے حکمراں بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ہم رعیت سےکیا کررہے ہیں۔ اگر دنیا کی آبادی کا ایک فیصد کورونا وائرس کا شکار ہو چکا ہوتا تب دنیا بھر کے حکمرانوں کا شوروغوغا سمجھ میں آتا۔ سات کروڑ یا سات سو لاکھ نفوس دنیا کی ایک فیصد آبادی ہوتے ہیں، سات سو لاکھ! پچھلے تین ماہ میں چار لاکھ آدمی کورونا سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ باقی چھ سو چھیانوے لاکھ اللہ کے بندے خوش و خرم ہیں۔ بس، ہمدم کی طرح کورونا کے ڈر سے مفلوج ہوچکے ہیں۔ کل رات ہمدم کے سینے میں شدید درد اٹھا تھا نیم بیہوشی کی حالت میں ہم اسے اسپتال لے گئے تھے۔ معائنہ کرنیوالے ڈاکٹروں سے ہمدم کی بیوی نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب، ان کو کورونا تو نہیں ہوا ہے؟‘‘

ڈاکٹر نے تعجب سے ہمدم کی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’آپ کے شوہر کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے‘‘۔ ’’تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے رب۔ میرے میاں کو کورونا نہیں ہے‘‘۔ ہمدم کی بیوی شکرانے کے سجدے میں گر پڑی۔

تازہ ترین