• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انتخابات کے نام پر ان دنوں جو کھیل کھیلا جارہا ہے ،لگتا ہے اس سے عدالتی انصاف تو دور ہوتا جارہا جبکہStreet Justiceکا وقت مسلسل قریب آرہا ہے۔
عدالتی انصاف میں ایک جج ہوتا ہے، اس کی کرسی انصاف اور کمرہ عدالت، گواہ ہوتے ہیں اور پھر دلائل، انصاف صرف ہوتا ہی نہیں، ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔
سٹریٹ جسٹس میں ایک ہجوم کے سوا کچھ نہیں ہوتا، ان کے ہاتھ میں لاٹھیاں، پتھر اور آگ ہوتی ہے، یہ ہجوم پھر گواہ دیکھتا ہے نہ دلائل سنتا ہے، جو سامنے آئے اسے جلادو، جو راستہ روکے، اسے اڑا دو، جو سمجھانے کی کوشش کرے اسے مٹادو!
یہ کسی عذاب الٰہی کی وعید نہیں، سمجھنے والوں کے لئے کھلی کھلی نشانیوں کی بات ہے!نگران کیا کررہے ہیں اس کا ذکر کچھ دیر بعد میں، مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہمارے سکھ سرجن کو بھی مات دے دی ہے۔
ہرنام سنگھ اپنے چند غیر ملکی دوستوں کے ساتھ بیٹھا گپ لگارہا تھا، اس کا چینی دوست بولا!
”ہمارے ملک میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک شخص کی انگلی کٹ گئی، ہم اس شخص کو کٹی ہوئی انگلی کے ساتھ ہسپتال لے گئے ۔ ہمارے سرجنوں نے اس مہارت سے انگلی جوڑ دی کہ اس پر زخم کا نشان تک نہیں“۔
یہ سن کر امریکی بولا!
”یہ تو کچھ بھی نہیں…ہمارے ہاں ایک شخص کی گردن کٹ گئی ،ہمارے ڈاکٹروں نے اتنی مہارت کے ساتھ اس کی گردن واپس جوڑ دی کہ آج وہ شخص مکمل، بھرپور زندگی گزار رہا ہے“۔
یہ سن کر ہرنام سنگھ بولا!
”یارو!…جو کچھ تم لوگوں نے بتایا ہے، وہ سب کچھ فضول ہے، میری بات سنو! میرا چاچا ایک دن صبح رفع حاجت کے لئے گاؤں سے باہر گیا اور غلطی سے ٹرین کی پٹڑی پر بیٹھ گیا ،اتنے میں گاڑی آگئی، اس نے میرے چاچا کو دو حصوں میں کاٹ دیا ،اوپر کا دھڑالگ ،نچلا الگ … ہم دونوں دھڑا اٹھا کر قریبی ڈسپنسری میں لے گئے وہاں موجود کمپونڈر نے دیکھا کہ نچلا دھڑ زیادہ کچلے جانے کے باعث ناقابل استعمال ہوچکا ہے، وہیں ڈسپنسری کے احاطے میں کمپونڈر کی بکری بندھی ہوئی تھی اس نے فوراً کرپان ماری، بکری کے دو حصے ہوئے اس نے بکری کے نچلے دھڑ کو ہمارے چاچے کے اوپر والے دھڑ سے سی دیا ۔ واہ گورو کی کرپا سے ہمارا چاچا بھی بچ گیا اور دوکلو دودھ زور کا مفت میں مل رہا ہے!!
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی انتخابات کو ”چاچے“ جیسی مخلوق بنادیا ہے ،جو ”میں میں“ کرتی ہر طرف ممیاتی پھرتی ہے اور جس کا دل چاہے پکڑ کر اس کا دودھ نکال لیتا ہے۔ کمیشن کے80,80سالہ فاضل ممبران کو ئی الف لیلوی مخلوق بن کر ہزار پردوں کے پیچھے روپوش ہیں! صرف ایک باریش ماتحت افسر کو آگے کردیا ہے جو آئے دن ٹی وی کیمروں کے سامنے”رٹو“ طوطے کی طرح بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن میں سے سب باری باری غلط ثابت ہوئے“
”الیکشن وقت پر ہوں گے سکرونٹی کی مدت ایک ماہ ہوگی“
”امیدواروں کے احتساب کے لئے سپیشل سیل بنادیا گیا“
”انتخابی امیدواروں کی بے رحمانہ سکروٹنی ہوگی“
”ہم آنے والی اسمبلیوں کے گیٹ کیپر کا کردار ادا کریں گے“
جس طرح سے یہ انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل مکمل ہوا ، ہمیں تو الیکشن کمیشن کے ارکان، آنے والی اسمبلیوں کے گیٹ کیپر نہیں، کسی کچی ٹاکی سینما کے گیٹ کیپر نظر آئے، جو پانچ پانچ روپے لے کر ہر کسی کو اندر گھسا رہا ہوتا ہے کہ”جاؤ موجاں کرو!“ سٹیٹ بنک کی تیارکردہ وہ ڈیفالٹرز لسٹیں کدھر گئیں جو کئی بکسوں میں بھر کر کمیشن کو پہنچائی گئی تھیں۔NABکا تیار کردہ”چوروں“ کا ڈیٹا کدھر کیا ؟ FBRنے ٹیکس چوروں کوجو فہرستیں مرتب کی تھیں وہ کہاں گئیں؟ یہ کہا گیا کہ جس نے گزشتہ تین سال کیTaxریٹرن جمع نہیں کرائی الیکشن نہیں لڑسکے گا؟ وہ دعویٰ کیا ہوا؟
سب کچھ ہوا ہوگیا ،سب دعوے مٹی میں مل گئے۔ الیکشن کمیشن کے ا رکان جنرل ضیاء الحق کی آنکھیں بن گئیں۔ ضیاء الحق نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا میری آنکھیں ہیما مالنی سے ملتی ہیں ،جس پر اس نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کہ”حضور !آپس میں توملتی نہیں، ہیما مالنی سے کیا ملیں گی“۔ سنا ہے یہی حال الیکشن کمیشن کے ا رکان کا بھی ہے، سب اپنا اپنا”ڈاکخانہ“ پکا کئے بیٹھے ہیں کہ ان کا کوئی خط ،کوئی منی آرڈر کہیں گم نہ ہوجائے۔ آج اپنے شیخ الالسلام علامہ طاہر القادری شدت سے یاد آتے ہیں جو جلد بازی میں”ڈز“ ہوگئے۔ وہ دوست فرماتے تھے کہ یہ الیکشن کمیشن کے ”بابے“ بہت پہنچے ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن کا رونا اپنی جگہ…نگرانوں کا تو”سپایا“ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نگران وزیر اعظم ابھی تک وزیر خزانہ نہیں ڈھونڈ سکے۔ ملک کا بجٹ30جون تک ہر حال میں منظور ہونا ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس کم از کم 3 ہفتے چلتا ہے۔ بجٹ سازی از خود دو تین ماہ کا کام ہے۔ فرض کریں11مئی کو الیکشن ہو بھی گئے تو کب حکومت بنے گی، کب نیا وزیر خزانہ آئے گا، کب بجٹ پیش ہوگا، کب بجٹ پر بحث ہوگی، کب منظور ہوگا؟ نگران وزیر اعظم نے ایک ٹھیکیدار کو اسی محکمے کا وزیر بنادیا، جہاں وہ ٹھیکیداری کرتا ہے، لو کرلو گل!!نگران وزیر داخلہ نے جوش میں آکر آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کا حکم دیا، ایوان صدر پوری قوت سے اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا، ہور چوپو!!صوبوں کی صورتحال اس سے بھی دلچسپ ہے۔ سندھ میں پہلی بار نگران کا بینہ بنی تو”ذمہ داروں“ نے صدر زرداری کی فہرست مسترد کردی۔ اب اسی فہرست کے مطابق9لوگ اور شامل کئے جارہے ہیں۔ (یہ کالم چھپنے تک شاید یہ وزراء حلف اٹھا چکے ہوں) اس فہرست میں سندھ کے سیکرٹری آب پاشی کو وزیر آبپاشی بنانے کی بھی تجویز ہے ، جو نواز شریف اور مشرف دور میں سیکرٹری آبپاشی تھے۔ دو سال پہلے سیلاب آیا تو غفلت برتنے پر سپریم کورٹ نے ان صاحب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ موجودہ نگران وزیر اعلیٰ سندھ پر مشتمل کمیشن نے انہیں بری کردیا۔ سپریم کورٹ نے پھر سے ان کے خلاف کارروائی کا حکم دے رکھا ہے مگر ضد ہے کہ وہ وزیر بن کر رہیں گے۔سندھ میں کوئی افسر تبدیل ہوا ہے نہ نچلا عملہ، انتخابات میں زیادہ تر عملہ تعلیمی ادارے کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور سندھ کے موجودہ سیکرٹری تعلیم جناب آصف علی زرداری کے سگے بہنوئی ہیں، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں!پنجاب میں اگرچہ تبادلے ہوئے ہیں مگر صرف افسروں کے ضلع تبدیل ہوئے ہیں۔ ان کی ہمدردیاں تبدیل نہیں ہوئیں۔ راولپنڈی میں جس صاحب کو بطور DCOبھیجا گیا ہے وہ پنجاب کے شہزادہ اول کے کلاس فیلو ہیں اور میاں شہباز شریف نے ان کو بیٹا بنا رکھا ہے۔ ان صاحب کو رائے ونڈ سے جوTASKدیا گیا ہے، وہ راولپنڈی میں شیخ رشیداور عمران خاں کا خاص خیال رکھنا ہے، وہ اپنے دوست ہیں۔نام بے شمار ہیں ،اگر سب کے نام اور شجرہ نسب لکھنا شروع کروں گا تو یہ کالم کتاب بن جائے گا۔ مختصراً یہ کہ پنجاب میں سیکرٹری سکول(جس محکمے سے انتخابی عمل کیا جائے گا)گزشتہ ساڑھے چار سال سے اپنی سیٹ پر براجمان ہیں ان کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نیا سیکرٹری کالجز بھی میاں صاحبان کاBlue eyeافسر تھا۔ علاوہ ازیں سیکرٹری ہوم تبدیل ہوا ہے نہ سیکرٹری خزانہ!!تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ آنے والے الیکشن غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہوں نہ ہوں…آزادانہ ہر صورت میں ہوں گے ۔ بہ زبان حافظ ہم یہی کہہ سکتے ہیں اور یہی کرسکتے ہیں!عاقبت منزل ما،وادی خاموشاں استحالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز(مجھے یقین ہے کہ میری آخری منزل موت اور قبرستان ہے مگر جب تک اس آسمان تلے زندہ ہے جتنا شور مچا سکتا ہے، مچالے)
تازہ ترین