• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاش کہ بیرسٹر احمد رضا قصوری یکم جنوری 1977ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں تقریر نہ کرتے۔ اس روز جناب قصوری نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے و زیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں چاپلوس اور خوشامدی نہیں ہوں لیکن آج مجھے کہنا پڑے گا کہ مسٹر بھٹو کا نام تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ انہوں نے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کردیا ہے۔ یہ وہی قصوری صاحب تھے جنہوں نے گیارہ نومبر1974ء کو اپنے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا الزام اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر لگایا تھا۔ اس وقت پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے وزیر اعظم پر قتل کی ایف آئی آر درج ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ قصوری صاحب اپنا الزام ثابت نہ کرسکے اور کچھ عرصہ کے بعد قومی اسمبلی میں دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے۔ یکم جنوری 1977ء کو ان کی یادگار تقریر کا مقصد ا گلے انتخابات کے لئے دوبارہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنا تھا، انہیں ٹکٹ تو نہ ملی لیکن کاش کہ وہ یہ تقریر نہ کرتے۔ اس تقریر کے چند ماہ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور قصوری صاحب قومی اسمبلی میں اپنی یہ تقریر بھول کرجنرل ضیاء کے ساتھ مل گئے ۔
انہوں نے اپنے والد کے قتل کے مقدمے کی فائل دوبارہ کھلوائی۔ سیشن کورٹ میں سماعت کے بغیر ہی لاہور ہائی کورٹ سے بھٹو کو موت کی سزا دلوائی اور سپریم کورٹ سے اپیل مسترد کرادی۔ ساری دنیا اس مقدمے میں بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتی ہے۔ یہ پھانسی آج بھی پاکستان کی عدلیہ کے دامن پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ مل کر پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کے عدالتی قتل میں شامل ہونے والے احمد رضا قصوری آج بھی جنرل ضیاء الحق کے دو ر میں زندہ ہیں۔ان کا خیال ہے کہ آج بھی پاکستان کی عدالتوں کا کام صرف سیاستدانوں کو پھانسیاں دینا ہے۔ انہیں یقین ہے پاکستان کی عدالتیں آج بھی آئین توڑنے والے کسی ڈکٹیٹر کو سزا نہیں دے سکتیں۔ اسی یقین کے باعث احمد رضا قصوری ایک ا یسے ڈکٹیٹر کے وکیل بن بیٹھے ہیں جسے پاکستان کی سپریم کورٹ 2009ء میں غاصب قرار دے چکی ہے۔
کاش کہ احمد رضا قصوری یکم جنوری1977ء کو قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کی عظمت کے گیت نہ گاتے۔ کاش کہ یہ تقریر آج بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود نہ ہوتی اور کاش کہ یہ تقریر میری نظروں کے سامنے سے نہ گزرتی تو میں قصوری صاحب کو ا یک ایسا نڈر اور بے باک وکیل سمجھتا جو ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتا ہے لیکن یہ تقریر بتاتی ہے کہ وہ کسی جھجک کے بغیر اپنا موقف تبدیل کرنے میں بے مثال ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں بار بار اپنے لئے ایک ہی مقام تلاش کیا ہے۔ وہ بار بار ڈکٹیٹروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے ڈکٹیٹروں کو عدالتوں اور پارلیمنٹ سے تائید مل جاتی تھی لیکن2013ء میں ایسا نہیں ہوگا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت شروع کردی ہے۔ احمد رضا قصوری کے پاس مشرف کو بچانے کے لئے کوئی ٹھوس قانونی نکتہ نہیں ہے۔ وہ بار بار ایک ہی بات کہتے ہیں کہ مشرف نے1999ء میں آئین توڑا تو عدالتوں نے مشرف کے اقدام کی تائید کردی تھی،2007ء میں دوبارہ آئین توڑنے پر یہی عدالتیں مشرف کو غدار کیسے قرار دے سکتی ہیں؟ احمد رضا قصوری سپریم کورٹ کے ججوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کے ممدوح مشرف صرف اور صرف انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ قصوری اور مشرف کا خیال ہے کہ وہ اس مقدمے میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر فوجی و سیاسی شخصیات کو گھسیٹ لیں گے اور یہ مقدمہ اتنا پیچیدہ ہوجائے گا کہ مشرف سزا سے بچ جائیں گے۔
سب سے پہلے تو انہیں1999ء اور2007ء کا فرق سمجھنا ہوگا۔1999ء میں مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو عوام میں کوئی ردعمل نہ ہوا تھا۔ شایدا سی لئے چند ججوں کے سوا باقی ججوں نے مزاحمت نہیں کی۔ 1999ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت جن ججوں نے مشرف کے اقدام کو جائز قرار دیا انہوں نے کبھی اپنے اقدام پر فخر نہیں کیا بلکہ2007 ء میں کفارہ ادا کردیا۔2007ء میں مشرف کی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز9مارچ کو ہوا۔ مشرف نے آرمی ہاؤس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے زبردستی استعفیٰ لینے کی کوشش کی لیکن ناکامی پر انہیں نظر بند کردیا۔ جسٹس افتخار کے انکار نے پاکستان میں ایک نئی تاریخ کو جنم دیا۔ وکلاء اور سول سوسائٹی چیف جسٹس کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔ نچلی عدالتوں کے کچھ ججوں سمیت لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملازمت سے استعفیٰ دیدیا۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی ججوں نے چیف جسٹس کی حمایت کردی۔ آخر کار 3نومبر 2007ء کو مشرف نے دوسری مرتبہ آئین توڑا اور ایمرجنسی نافذ کردی۔2007ء میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد وکلاء اور سول سوسائٹی کی تحریک نے مشرف کو کمزور کردیا۔ مشرف نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے ججوں کو نظر بند کردیا اور وردی اتار کر الیکشن کرادیا لیکن الیکشن میں مشرف کے ساتھیوں کو شکست ہوگئی۔ مجبوراًموصوف استعفیٰ دے کر پاکستان سے بھاگ نکلے۔ جیسے ہی جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہوئے تو مشرف الیکشن میں حصہ لینے کے لئے واپس آگئے۔ ان کا خیال ہے کہ2009ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں۔
ان کا خیال ہے کہ انہوں نے کچھ سیاستدانوں کو ان کے غیر ملکی دوستوں کے ذریعہ خاموش کرادیا لہٰذا پاکستان میں انہیں کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔ یہ ان کی خام خیالی تھی۔ سپریم کورٹ نے مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت شروع کرکے پاکستان کی نئی نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے، اگر توہین عدالت میں یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو سکتے ہیں تو آئین توڑنے کے ا لزام میں پرویز مشرف کو بھی سزا ملے گی۔ اب مشرف کو یہ ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے ساتھی کور کمانڈروں کی تائید سے آئین توڑا تھا۔ کیا وہ عدالت میں کوئی تحریری ثبوت پیش کرسکیں گے؟ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگانے والاڈکٹیٹر اپنے آپ کو بچانے کیلئے پاکستانی فوج کے سربراہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ تاریخ نے پاکستان کی عدلیہ کو ایک سنہری موقع دیا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ ایک ڈکٹیٹر کو عبرت کی مثال بنا کر پوری دنیا پر ثابت کرسکتی ہے کہ بیرونی طاقتیں ہمارے سیاستدانوں پر تو اثر انداز ہوسکتی ہیں، عدالتوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ اس مقدمے میں عدالت کے فیصلے کے بعد احمد رضا قصوری کو پتہ چلے گا کہ یہ1979ء کا پاکستان نہیں بلکہ2013ء کا پاکستان ہے۔
تازہ ترین