• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتجاج کو گھروں تک نہ لے جائیں تحقیقاتی کمیشن اتفاق رائے سے بننا چاہئے

قومی اسمبلی میں پاناما لیکس کے معاملے پر گزشتہ روز بھی سخت شور شرابا اور ہنگامہ آرائی رہی۔اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے گئے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق ملک کا یہ منتخب ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا رہا جبکہ فی الحقیقت اس ادارے میں قوم کو درپیش معاملات پر سنجیدگی ، شائستگی اور دلائل کے ساتھ، آئین اور قانون کی روشنی میں اس طرح گفتگو ہونی چاہیے اور مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہئے جو پوری قوم کیلئے مثال ثابت ہو اور اس کی تربیت کا ذریعہ بنے۔کوئی شبہ نہیں کہ اس واقعے نے درجنوں ملکوں کی سیاست میں شدید اضطراب پیدا کردیا ہے جبکہ پاکستان میں بھی وزیر اعظم کے بچوں کے علاوہ سیاست اور کاروبارسے وابستہ سینکڑوں افراد کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔تاہم فطری طور پر وزیر اعظم کے بچوں کا معاملہ سب سے زیادہ حساس ہے ۔ بالفرض وہ اگر کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ثابت ہوتے ہیں تو قانونی نہ سہی لیکن اخلاقی طور پر وزیر اعظم کی شخصیت اس سے بہرحال مجروح ہوگی لہٰذا قومی اسمبلی میں اسی حوالے سے سب سے زیادہ بات ہورہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاناما لیکس میں اپنے بچوں کے نام سامنے آنے پر وزیر اعظم نے بلاتاخیر قوم سے خطاب ضروری سمجھا اور اس میں پورے معاملے کی مکمل عدالتی تحقیقات کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے سابق ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کے فیصلے کا اعلان کردیاجبکہ دوسری جانب پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنما سابق ججوں پر مشتمل کمیشن کی تجو پر عدم اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں انکوائری کرائی جائے جس کی معاونت ایسی بین الاقوامی فرم کرے جس کے پاس فرانزک آڈٹ کا تجربہ ہو۔جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ اگر تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کے بجائے سپریم کورٹ سے انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا جاتا، اپوزیشن کی جانب سے تب بھی اس کی بھی مخالفت کی جاتی۔دوسری جانب سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خزانہ نے اپنے طور پر پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈی والا کے مطابق اس مقصد کیلئے تمام متعلقہ اداروں سے تفصیلات طلب کی جائیں گی اور ماہ رواں ہی میں تحقیقات کو مکمل کرلیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اثاثے چھپانے والے سیاستداں نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں،اگر آف شور کمپنیوں کا سلسلہ جاری رہا تو ٹیکس چوری بڑھے گی، کوئی بھی ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے گا اور غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی ہوگی۔آف شور کمپنیوںکے یہ نتائج قومی معیشت کیلئے جس قدر تباہ کن ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لہٰذا ناجائزآف شور کمپنیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام قومی مفاد کا عین تقاضا ہے۔اس معاملے میں جن پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان سب سے ایسی مکمل تحقیقات ضروری ہے جو پوری قوم کیلئے قابل اعتماد ہو اور جس کی ثقاہت شک وشبہ کے ہرشائبہ سے بالاتر ہو۔لہٰذا تحقیقاتی کمیشن کے حوالے سے حکومت کو اپوزیشن کی تجاویز اور مطالبات کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے ۔ سابق ججوں پر مشتمل کمیشن کے بجائے اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں حاضر سروس ججوں سے تحقیقات اور اس میں فرانزک انکوائری کی ماہر بین الاقوامی آڈٹ فرم کی شمولیت پر اتفاق رائے ممکن ہے تو اس آپشن کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں کو بھی اصل اہمیت قابل اعتماد تحقیقات کو دینی چاہیے اور حکمرانوں کے گھروں کے گھیراؤ کے پروگرام بنا کر قومی سیاست کو پچھلے عشروں کی ذاتیات پر مبنی سیاست کی سطح پر لے جانے سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے جس سے بڑی مشکل سے نجات پاکر قوم کسی حد تک سیاسی بلوغت کے مرحلے تک پہنچی ہے۔ایسی سیاست خود اپوزیشن قائدین کے حق میں بھی اچھی نہیں کیونکہ اس سے قومی مفاد سے ان کے مخلص ہونے کے بجائے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق وہ ایک منفی صورت حال کو محض سیاسی فائدے کی خاطر اپنے مفاد میں استعمال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
تازہ ترین