• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرے تو کیا کرے، اسلامی جمہوریہ کا منتخب وزیراعظم! ہر نیا دن، اِک نیا ہنگامہ۔ ایک سے نپٹے تو دوسرا تیار۔ اللہ کا دیا کیا کم تھا کہ آف شور کمپنیوں میں بھی ہاتھ دے ڈالا۔ پاناماسے دُنیا بھر کے امیروں اور رہنماؤں کے خفیہ کھاتوں کا ایسا بھانڈہ پھوٹا کہ ہر سو اِک ہنگامہ بپا ہو گیا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم مستعفی ہوئے اور برطانیہ کے وزیراعظم کو جان کے لالے پڑے ہیں۔ شور فقط وہاں پڑا ہے جہاں جمہوریتیں ہیں، آمرانہ ملکوں میں گھبراہٹ کو چھپانے کے ڈھکوسلے جاری ہیں۔ جگہ جگہ تفتیش و تادیب کے دفتر کھل گئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ ایک عدالتی کمیشن کا اعلان کر کے، میڈیا اور حزبِ اختلاف سے خلاصی پائی جائے۔ بھلا میڈیا کہاں نچلا بیٹھنے والا تھا، احتساب احتساب کا ڈنکا پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ میدانِ کارزار میں اور تو اور پیپلز پارٹی بھی اُتری، یہ بھولتے ہوئے کہ اُس کے ہونہار سابقہ وزیرِ داخلہ رحمان ملک کا نام بھی صدام حسین کے زمانے میں عراقی تیل کی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہے۔ اور پھر سے نکلے عمران خان پھر سے کمر ٹھونک کر اِک اور تاریخی موقع کو ضائع نہ ہونے دینے کو۔ پھر کیا تھا قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے جوڈیشل کمیشن کی وہ گت بنی کہ بیچارے کا بننے سے پہلے ہی اسقاط ہو گیا۔ ظاہر ہے اپوزیشن کیوں ایسی اشک شوئی پر قناعت کرتی۔ فرانزک آڈٹ سے چیف جسٹس کے تحت تحقیقاتی کمیشن تک، ایسی تجاویز دی گئیں جو شکنجہ کسنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ جان آسانی سے چھوٹنے والی نہیں، رانا ثناء اللہ کی ’’پاجامہ لیکس‘‘ کی پھبتی اور نہ شوکت خانم کینسر اسپتال ٹرسٹ کی امانتی رقوم کو آف شور کمپنیوں میں ڈبونے کے واویلے سے۔ خیریت اسی میں ہے کہ ایک طاقتور، آزاد، موثر اور کڑی تحقیقات کا بندوبست ہو اور سپریم کورٹ اُس کی نگرانی کرے۔ ورنہ یہ معاملہ جتنا لمبا چلے گا، اُتنا ہی حکومت ہر روز خوار ہوتی رہے گی۔ اسے کہتے ہیں: نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔
پاناما لیکس میں وزیراعظم کے فرزندوں کا نام آنا تھا کہ حکومت ہر محاذ پر پسپا ہوتی دکھائی دی۔ پنجاب میں خواتین کے تحفظ کے قانون پر خواتین پر تشدد کے حامی بعض مذہبی رہنما کے سامنے پنجاب کے مردم آہن نے ہتھیار ڈال دیئے، یہ بھولتے ہوئے کہ محترمہ تہمینہ درانی کے دل پہ کیا گزرے گی۔ اور وزیراعظم خطے میں امن و تعاون کے جس ایجنڈے پر منتخب ہوئے تھے، اس سے اُنھیں طاقتور عقابی مقتدرہ کے سامنے دستکش ہونا پڑا، جیسے جنرل نیازی نے کیا تھا۔ ایسے میں بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے دہلی والوں کو ایسی جوتی دکھائی ہے کہ بات چیت کی فاختہ کہیں اُڑان بھر گئی اور پٹھان کوٹ پر تحقیقات کے لئے دو طرفہ تعاون کا سلسلہ فی الحال تعطل کا شکار ہوا۔ آخر کوئی حد ہے کہ سول حکومت ’’را‘‘ کے افسر کل بھوشن جادیو پر چپ سادھے بیٹھی رہے اور سلامتی کے اداروں کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگے۔ قبل ازیں، پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن پر جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا، وہ قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس کے بعد رفع ہوئے اور پنجاب کا شریفانہ قلعہ، ’’میرا لٹیا شہر بھنبھور‘‘ کے مصداق، اتھل پتھل کی لپیٹ میں ہے۔ جو بلوچستان اور سندھ میں صفائی ستھرائی ہوئی، اب وہ پنجاب کو پوتر بنانے پر منتج ہونے جا رہی ہے۔ ذاتی، نظریاتی اور سیاسی کمزوریاں عوامی مینڈیٹ کو خجل خراب کرنے کا سامان کرتی نظر آتی ہیں۔ اِس سے پہلے، ابھی عوامی مینڈیٹ کی چمک دمک باقی تھی کہ عمران خان کے دھرنے نے جمہوریہ کی دُم کاٹ کر رکھ دی تھی۔ بھلا ہو متحدہ پارلیمنٹ کا اور جنرل راحیل شریف کا کہ جمہوریہ مرتے مرتے بچی اور شریفوں کی قدامت شدت پسندوںکے حضور سجدہ ریزی سے ہٹنے پر مجبور ہوئی اور جنرل راحیل شریف کی ضربِ عضب کی کرشمہ سازی نے قوم کو چین دینے کا کچھ بندوبست کیا۔ اسے کہتے ہیں مارا گھٹنا کسی نے اور پھوٹی آنکھ کسی اور کی۔
شریف نگری میں یہ دن بھی دیکھنے کو ملنا تھا کہ آف شور کمپنیوں کو پوتر اور قانونی قرار دیئے جانے کی تکرار درباریوں کے شور میں سنائی دی۔ آج سرمایہ دار دُنیا میں ان کمپنیوں کے خلاف دہائی دی جا رہی ہے جو چوری چکاری، ہیرا پھیری، کالے دھن کو سفید کرنے اور ٹیکسوں سے بچ نکلنے کے چور دروازے فراہم کرتی ہیں۔ شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور لندن میں جائیدادوں کی خریداری کا معاملہ اُس سے بہت پرانا ہے جتنا کہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ معاملہ فقط سعودی عرب میںا سٹیل ملز بیچ کر آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیداد خریدنے کا ہوتا تو با آسانی حل ہو سکتا تھا۔ اور معاملہ صرف وزیراعظم کے بچوں کا نہیں ہے، 200 کے قریب اور لوگ بھی ہیں جو اس آبِ خیانت سے مستفیض ہوتے رہے ہیں اور اس ناجائز دولت کی انتہا نہیں ہے۔ پاکستان کی چربہ سرمایہ داری میں یہ دھندا شروع سے جاری ہے اور سرمایہ دار اور تاجر حضرات اسی طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے ہیں اور اس کارِ خیر سے مدارس و مساجد کو صدقات کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی انتخابی گاڑیوں میں خوب تیل بھرتے رہے ہیں۔ شریف حکومت ٹیکسوں پہ عام معافی کے لئے ہمیشہ سے مشہور رہی ہے تاکہ ناجائز دولت کو تھوڑی سی خیرات کے عوض جائز بنایا جا سکے۔ اب ٹیکس چوری، کالے کو سفید دھن میں بدلنے کے ڈھنگ اور اس نظامِ کرپشن پر بھرپور اور کڑا ہاتھ ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ بہتر ہے سیاستدان خود ہی یہ نیک کام کر لیں ورنہ جمہوریہ کے لالے پڑ سکتے ہیں جو ہم جمہوریت پسندوں کو قبول نہیں۔ احتساب ہو، سب کا ہو، لیکن اگر اسے جمہوریت کا بستر گول کرنے کے پرانے آزمودہ ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا تو آئینی ڈھانچے کیلئے تباہ کن ہوگا جو کہ دہشت گردوں اور مذہبی انتہاپسندوں کا منتہائے مقصود ہے۔
اِدھر سول منظرنامے پر سیاستدان دست و گریباں ہیں، اُدھر جمہوری حکمرانی کی زمین سکڑتی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سویلین قیادت نے اگوائی کی بجائے پسپائی اختیار کی۔ اور جنرل راحیل شریف نے جنرل کیانی کے برعکس سپہ سالاری کا حق ادا کر دیا۔ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو، اور وہ بھی اندرونی و غیرروایتی، تو افواج کا کردار بڑھتا ہی ہے۔ یہ اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے جب سویلین قیادت دہشت گردی کیخلاف غیرعسکری محاذوں پر تنکا بھی نہ توڑے۔ لہٰذا صوبائی کابیناؤں کے اوپر اپیکس کمیٹیاں بنائی گئیں اور رفتہ رفتہ طاقت کا منبع کہیں اور سرکتا گیا۔ اب یہ کام پنجاب میں پایۂ تکمیل ہونا ہے۔ اور اب ایک نیم فوجی، نیم سویلین انتظامی ڈھانچہ تمام صوبوں میں قائم ہو چلا ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت اپنے پَر کب کے کٹوا چکی۔ 2013ء کے انتخابی مینڈیٹ کے آخری دو سال اب شاید احتساب کی نذر ہو جائیں، پھر دیکھیں گے کہ کون بچ بچا کر سامنے آتا ہے۔ اور اگر اس حمام میں سبھی ننگے ثابت ہو گئے تو پھر جمہوریہ کی خیر منانے والا شاید کوئی نہ ہو۔ سوائے اُن چند سر پھروں کے جو ابھی بھی جمہوری راگ الاپنے سے باز نہیں آ رہے۔ اور ایسے جمہوری شاعروں کو کون پوچھتا ہے۔ پلے نہیں دھیلا، کردی میلا میلا۔
تازہ ترین