• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21کروڑ زندگیوں کا رکھوالا کسی مرنے والے کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کررہا ہے نہ متاثرین کا دُکھ بانٹ رہا ہے۔ اب بھی ضد ہے کہ ملک بند نہیں ہو سکتا۔ کاروبار کھلنا چاہئے۔ ہمیں معمول کی طرف واپس جانا چاہئے۔ شروع میں کہا کہ یہ معمولی سا نزلہ ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ میں گورکن نہیں ہوں۔ پھر یہ بھی کہا کہ میرے ہاتھ میں جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ اب لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ صرف اس کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔ 21کروڑ یہ محسوس کررہے ہیں کہ ان کا لیڈر ان کے کرب کا ادراک نہیں رکھتا۔

برازیل کے صدر بولسونارو کی ضد کی قیمت 50ہزار برازیلی جان دے کر ادا کرچکے ہیں۔ متاثرین کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کررہی ہے۔موجودہ حکمرانوں میں برازیلی صدر امریکی صدر سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اب بھی روزانہ 500سے زیادہ افراد وبا کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک سخت لاک ڈائون۔

سماجی فاصلوں پر پابندیوں کی بدولت کورونا پر قابو پاکر اب معمول کی زندگی کی طرف سفر شروع کرچکے ہیں۔بعض اداروں نے تو یہ خوش خبری سنائی ہے کہ یہ وبا سماجی فاصلوں سے ہی دم توڑے گی۔ شاید ویکسین کی ضرورت نہ پڑے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ شکایت یہی رہی ہے کہ عوام سماجی فاصلوں کی پابندی نہیں کررہے ہیں۔ عید پر شاپنگ مال کھلنے کے بعد جو ہڑ بونگ مچی اس کے متاثرین اب سامنے آرہے ہیں۔ صرف بزرگ ہی نہیں نوجوان بھی اس کی نذر ہورہے ہیں۔

اخبار فروش رہنما چوہدری نذیر احمد۔ ہر دم ایک خوبصورت مسکراہٹ والے بھی دنیا چھوڑ گئے۔ بہت نرم مزاج۔ صلح جو۔ اخبار رسالوں کے فروغ میں سرگرم۔ ہر روز کسی نہ کسی کی دائمی جدائی کی اطلاع آرہی ہے۔ قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہ کرنے کا رجحان کورونا کے دنوں میں اچانک نہیں ہوا ہے۔ ہماری اشرافیہ تو قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتی آرہی ہے۔ ہمارے ادارے آئین کو چند صفحات کی کتاب جب چاہے پھاڑ کر پھینک دوں کہتے رہے ہیں۔کتنی بار اسے سرد خانے میں ڈالا گیا۔

پاکستان کا زیادہ رقبہ جاگیرداروں۔ سرداروں۔ تمن داروں کے زیر اثر ہے۔ وہاں ان کا کہا قانون ہے۔ شہروں میں اب با اثر مافیا اپنا قانون چلاتے ہیں۔ شہروں میں کئی آبادیاں ابھی ہیں۔ جہاں اتھارٹیز کے قوانین چلتے ہیں۔ مذہب کے حوالے سے کئی عبادت گاہوں۔ خانقاہوں میں علمائے کرام اور مشائخ عظام قوانین سے بالاتر ہیں۔

کسی معاشرے میں یہ ذمہ داری ماں باپ، اساتذہ، اہلِ محلّہ، سیاسی رہنمائوں، دوست احباب کی ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو نوجوانوں کو قواعد و ضوابط کی تعمیل کی تربیت دیں۔ با اثر میڈیا بھی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ مقتدر ادارے۔ پارلیمنٹ کے ارکان۔ ایم پی اے سب نا فرمانی میں آپ کے سہولت کار بنتے ہیں۔

احتجاجی سیاسی ریلیوں کی کامیابی کا معیار عام ٹریفک میں دو اڑھائی گھنٹے کا خلل قرار دیا جاتا ہے۔ اب جب کئی ممالک وبا کے پھیلائو کی رفتار سست پڑنے پر معمولات کی بحالی کے منصوبے جاری کررہے ہیں،ہمارے ہاں متاثرین میں اضافہ ہورہا ہے۔ روزانہ اموات کی تعداد 100سے زیادہ ہے۔

وفاق اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ دنیا بھر میں سماجی فاصلے کو سب سے زیادہ نتیجہ خیز کہا جارہا ہے جو لاک ڈائون کی بنیاد ہوتا ہے۔ہمارے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ مجھ سے پوچھا جاتا تو میں کہیں لاک ڈائون ہونے نہ دیتا۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں علاقوں کی الگ الگ تخصیص کرکے وہاں معمولات زندگی بحال کرنے کی بتدریج مرحلہ وار منصوبہ بندی کی جائے۔ صوبوں اور مقامی حکومتوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے ارضی حقائق کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کریں۔ میں نے اس ہفتے کینیڈا میں ملک کھولنے کی تدابیر کا جائزہ لیا۔

بہت سے احباب وہاں رہتے ہیں۔ دو بیٹے بھی۔ ایک پوتا، ایک پوتی بھی۔ وہاں کورونا سے جنگ 24جنوری سے شروع ہوئی تھی۔ 12مارچ کو اسکول بند کیے گئے۔ اب صوبوں اور علاقوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بحالی کے پلان بنائیں۔

جون اس بحالی کا سر آغاز بن گیا ہے۔ مختلف فیز (مرحلے) تشکیل دیے گئے ہیں۔ ہر فیز میں تین یا چار اسٹیج ہیں۔ واضح کردیا گیا ہے کہ کسی فیز کے کسی اسٹیج پر کیا کیا کھلے گا۔ اجتماع کی تعداد کتنی ہوگی۔ پہلا فیز وبا سے بچائو اور اشتراک تھا۔ دوسرےفیز میں بحالی کا آغاز۔ تیسرا فیز بھرپور بحالی۔ جس میں کاروبار بھی کھل جائے گا۔

ملازمتوں کے مواقع۔ ہر فرد اور خاندان کی طویل المیعاد خوش حالی۔ کئی صوبوں میں پارک سیر کے لیے بچوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں لیکن پہلے سے وقت کی بکنگ ہوتی ہے۔ لائبریریوں میں کتابیں لینے اور واپس کرنے کی سہولت دے دی گئی ہے۔ بار بار کہا گیا ہے کہ اوّلیں ترجیح صحت کو ہی ہے۔ ہر علاقے میں ایک چیف میڈیکل ہیلتھ آفیسر ہے۔

جس کی بات سب مانتے ہیں۔ ایک بحالی کمیٹی بنادی گئی ہے۔ بعض صوبوں میں جہاں نئے متاثرین سامنے نہیں آرہے ہیں وہاں رہائشیوں کو مہمان بلانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ عبادت گاہیں ایک تہائی حاضری کی پابندی سے کھول دی گئی ہیں۔

ہم چاہیں تو کینیڈا کے اس فریم ورک سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ وہاں تو اموات کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔ لیکن شہریوں کے بھرپور تعاون کے بعد اب معمول کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوگیاہے۔ ان منصوبوں کے اعلانات سے شہریوں میں بے یقینی کی کیفیت ختم ہورہی ہے۔

ستمبر میں آخری مرحلے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی وفاق اور صوبے ایسی بصیرت، ادراک، صراحت کا اہتمام کرکے منصوبے تیار کرسکتے ہیں اور ایسے علاقے جہاں اب نئے متاثرین نہیں آرہے ہیں۔ وہاں کاروبار اسکول سب کھول دیں لیکن یہ پابندی رہے کہ وہاں دوسرے متاثرہ علاقوں سے کوئی داخل نہ ہو۔ خیال رہے کہ 14اگست کورونا سے آزادی کا دن ہمارا ہدف ہونا چاہئے۔

تازہ ترین