• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس دن کراچی میں گولیاں چل رہی تھیں اور عمران خان گولیاں چلانے والوں پر برس رہے تھے۔ جی ہاں! یہ 12مئی 2007کا دن تھا۔ پرویز مشرف پاکستان کا حکمران تھا اور اُس نے طاقت کے نشے میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اُن کے عہدے سے برطرف کرکے اُن کے خلاف ایک ریفرنس دائر کر دیا تھا۔ چیف جسٹس کی برطرفی کے خلاف وکلاء نے احتجاج شروع کر رکھا تھا۔

12مئی 2007کو افتخار محمد چوہدری نے سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر وکلاء کنونشن سے خطاب کرنا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے جناح انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر معزول چیف جسٹس کے استقبال کا اعلان کررکھا تھا۔

سندھ حکومت نے اس استقبال کو روکنے کیلئے پوری ریاستی طاقت کو استعمال کیا اور حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو لندن سے حکم دیا گیا کہ افتخار محمد چوہدری کو کسی بھی صورت میں ایئر پورٹ سے باہر نہ آنے دیا جائے۔ جیسے ہی معزول چیف جسٹس کراچی پہنچے تو شہر میں فائرنگ شروع ہو گئی۔

پورے ملک میں تشویش اور بےچینی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ زمانہ بھی میڈیا کیلئے بڑا سخت تھا لیکن اتنی سختیاں نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ ہم نے کراچی کے حالات پر جیو نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن میں عمران خان کو بلا لیا۔ عمران خان کو بلانے پر حکومت اکثر ناراض ہو جایا کرتی تھی لہٰذا ہم نے حکومتی نقطہ نظر کیلئے وزیر مملکت برائے داخلہ ظفر اقبال وڑائچ کو بھی بلا لیا۔

عمران خان کو کراچی سے ڈاکٹر عارف علوی بار بار فون پر بتا رہے تھے کہ ایم کیو ایم والے ہمارے کارکنوں پر گولیاں چلا رہے ہیں اور عمران خان لائیو ٹرانسمیشن میں بار بار کہہ رہے تھے کہ کراچی میں اِس قتلِ عام کے ذمہ دار پرویز مشرف اور الطاف حسین ہیں۔

عمران خان اس لائیو ٹرانسمیشن کے ہیرو تھے اور مجھے مختلف ذرائع سے دھمکیاں مل رہی تھیں کہ کراچی اور حیدرآباد میں جیو کی ٹرانسمیشن بند کر دی جائے گی۔ نہ میں افتخار محمد چوہدری کو ذاتی طور پر جانتا تھا، نہ عمران خان جانتے تھے، نہ وہ درجنوں لوگ موصوف کو جانتے تھے جو اُس دن کراچی میں افتخار محمد چوہدری کے نام پر مارے گئے۔ ہم صرف ایک اصول کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ یہ کہ عدلیہ کے بازو مروڑنا غیرآئینی ہے۔

12مئی کے واقعات کے بارے میں عمران خان نے اُس دن جو کچھ میرے لائیو شو میں کہا وہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں لکھا۔ اُنہوں نے لکھا تھا کہ اگر 12مئی 2007کو کراچی میں قتلِ عام کرنے والوں کو سزا مل جاتی تو تحریک لبیک کو فیض آباد راولپنڈی میں ہنگامہ آرائی کی جرأت نہ ہوتی۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ 12مئی کو عمران خان جیو نیوز پر میرے سامنے بیٹھ کر جس الطاف حسین کو قاتل قرار دے رہے تھے اُس الطاف حسین کو ایک صاحب نے نیلسن منڈیلا قرار دیا۔

اُن صاحب کا نام فروغ نسیم ہے، یہ صاحب عمران خان کے وزیر قانون بن گئے اور انہی صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس بنایا۔ اس ریفرنس کے دائر ہونے سے کافی دن پہلے میں نے وزیراعظم عمران خان کو خبردار کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ سے پیپلز پارٹی بھی ناراض تھی اور مسلم لیگ(ن) بھی، آپ کی حکومت نے ریفرنس فائل کیا تو وکلاء برادری میں بےچینی پھیلے گی۔

اس کام سے باز رہیں۔ 15مارچ 2019کے کالم میں اس ناچیز نے عرض کیا تھا کہ جو لوگ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کچھ اداروں پر تنقید کو انا کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی انا پرستی کا فائدہ دشمن اٹھائے گا۔ 18اپریل 2019کے کالم کا عنوان تھا ’’اندھیری رات‘‘، عرض کیا کہ تحریک انصاف کو ادارہ انصاف کے ساتھ لڑائی زیب نہیں دیتی، جو آپ کو اس لڑائی میں دھکیل رہا ہے وہ آپ کا دوست ہے نہ اپنا دوست۔ چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات کی طرف مت بڑھیے۔

عمران خان کو اندھیری رات سے خبردار کرنا ان کے ساتھ دشمنی تھی یا دوستی؟ پھر ایک ملاقات میں اس خاکسار نے انہیں بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ایک فرد کے احتساب کی کوشش نہیں بلکہ ایک ادارے کی دوسرے ادارے کے ساتھ لڑائی تصور ہوگا۔ عمران خان نے واضح کیا کہ ان کے پاس ججوں سے لڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔

ان کی ترجیح معیشت ہے اس ملاقات کے چند دن بعد ریفرنس دائر ہو گیا تو پھر میں نے 10جون 2019کو ’’رسوائیوں سے ڈرتا ہوں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا کہ آپ تو مجھے کہتے تھے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کچھ نہیں ہونے والا پھر یہ ریفرنس کہاں سے آ گیا؟ 13جون 2019کے کالم میں انہیں پھر یاد دلایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فیصلے میں وہ کچھ لکھ دیا جو آپ نے 12مئی 2007کو میرے لائیو شو میں کہا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حکومت نے خیرمقدم کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنہوں نے ریفرنس بنوایا ان کے طبلچی ابھی تک قاضی فائز عیسیٰ پر خوب غصہ جھاڑ رہے ہیں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو جعلی حریت پسند قرار دے رہے ہیں۔

مان لیا کہ ہم جعلی حریت پسند ہیں لیکن فیصلہ تو تاریخ نے کرنا ہے کہ ہم الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا قرار دینے والے فروغ نسیم کو روزِ اول سے غلط قرار دے رہے ہیں اور آپ ایک جعلی نیلسن منڈیلا کے اصلی پرستار کی دانش پر بھروسہ کرکے اپنا روزِ آخر بھی بھول گئے۔

آج پاکستان کی وکلاء برادری عمران خان کے بارے میں وہی نعرے لگا رہی ہے جو نعرے تحریک انصاف 2007میں پرویز مشرف کے بارے میں لگا رہی تھی۔ مشرف کی پالیسی اور مشرف کے ساتھیوں کو گلے لگا کر خان صاحب کو کیا ملا؟ اسی لئے تو بہت پہلے لکھ دیا تھا ’’تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین