• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ جب آپ کو کسی اعلیٰ منصب پر فائز کرتا ہے تو آپ کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی اس سے کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ آپ خاندانی تنازعات میں منصفی کرنے بیٹھیں یا کسی پنچایت میں کوئی فیصلہ کن حیثیت میں کردار ادا کررہے ہوں تو انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اپنے دل سے ہر قسم کی نفرتیں، وسوسے نکال کر انصاف کے ترازو کو ہاتھ میں پکڑیں، پھر یہ نہ سوچیں کہ کس کا کتنا نقصان ہوتا ہے یا فائدہ؟ زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، اس میں بڑے بڑے امتحان آپ سے بصیرت، تدبر کا تقاضا کرتے ہیں۔ جو جیتا وہی سکندر محض ایک محاورہ نہیں اس کی گہرائی میں جائیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ جیت محض مخالفین کو زیر کرنے کا نام نہیں۔ جیت میں ایک وقار، بردباری کی اپنی ہی شان ہے۔ سکندر وہی کہلاتا ہے جو فتح یاب بھی ہو مگر دشمن کے سامنے اپنا وقار بھی نہ کھوئے، اقتدار کے کھیل میں محلاتی سازشوں سے کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر اس کامیابی کے پیچھے لاشعوری طور پر خوف کا سایہ بھی ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں کوئی دوسرا سازشی آپ کے خلاف سازش کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے اور آپ کی وقتی کامیابی تاریخی ناکامی کا سبب نہ بن جائے یا پھر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ پاکستان کی جمہوریت کے سر پر ہر وقت جو خطرات منڈلاتے رہتے ہیں انہی محلاتی سازشوں کا نتیجہ ہیں جو آپ دراصل دوسروں کے خلاف کرتے رہے ہیں اور ایک دن ان سازشوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس میں کمال سازشی عناصر کا نہیں کمال ان کا ہے جو سیاسی بصیرت سے عاری خود ہی ان ساز شوں کا شکار ہوتے ہیں پھر سازش در سازش کا کھیل رچا کر خود ہی اس کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت بار بار انہی سازشوں کی بھینٹ چڑھتی رہی۔ ہم نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ بڑے بڑے تیس مار خان انہی سازشوں کے ہاتھوں مات کھا گئے۔ یہی محلاتی سازشیں آج ایک بار پھردانت نکالے کھڑی ہیں لیکن اس بار یہ سازشیں کوئی اور نہیں کر رہا، محل کا مکین اپنے ہی جال میں اُلجھتا جارہا ہے۔ وہ بےیقینی کی صورتحال میں وسوسوں کا شکار ہے اور اس وہم میں مبتلا کہ وہ بےاختیار ہے، وہ غالباً اٹھارہویں ترمیم کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھ رہا ہے لیکن سوچنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ خود بیساکھیوں کے سہارے اور غیروں کے سرمائے کے بل بوتے پر سیاست میں آئے ہوں انہیں یہ قرض اُتارنے ہی پڑتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ چند سرمایہ داروں کے سرمائے کے زور پر اقتدار میں آئیں اور پھر انہیں ہی مافیاز قرار دےدیں اور بعد میں جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ چاہے وہ عدلیہ سے نااہل ہی کیوں نہ قرار پائے ہوں۔ اس کے باوجود ساہوکار اپنا قرض واپس ضرور مانگتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال سے آج کل اقتدار کے محل کا مکین دوچار ہے۔ جہانگیر ترین اگرچہ ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوئے لیکن سرمایہ کار کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ ایک بار پھر پاکستان کی سیاست انہی سازشوں کی بھینٹ چڑھنے والی ہے۔ اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے حالات ایسے نہیں پھر بھی میدان لگے گا۔ اطمینان اس بات کا ہے جو کہانی کورونا وائرس سے متاثرہ سیاست دانوں کی تیمارداری سے شروع ہوئی تھی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ خوش فہمیاں غلط فہمیوں کا روپ دھارے ایک بڑے امتحان کو آواز دے رہی ہیں۔ بڑے مولانا صاحب نے بھی چھوٹے میاں کی ٹیلی فون کال پر آمین کے بعد گوشہ نشینی ترک فرما کر کمر کس لی ہے اور مینگل صاحب نے بھی ہلکی ہلکی ڈھولکی پر دھمال ڈالنا شروع کر دی ہے۔ زرداری صاحب بھی سُر تال ملانے کے لئے طبلے کی تان پر ساتھ دے رہے ہیں۔ متحدہ والے کسی بھی وقت اس محفل موسیقی میں شریک ہو کر لطف اندوز ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ موسیقار اس سوچ میں ہیں کہ کیسے پرانی دھنوں سے نئے نغمے تراشے جائیں۔ نئے نکاح کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں مدعین کی فہرست طویل ہے، اپوزیشن کی برات پہلے بلوچستان جائے گی، ولیمہ اسلام آباد میں ہوگا، بڑے مولانا صاحب نکاح پڑھائیں گے، آصف زرداری، میاں شہباز شریف بطور گواہ شرکت کریں گے، دیکھتے ہیں نئے نکاح کی برکتیں کہاں تک پھیلتی ہیں۔ حالات جس انداز میں رخ بدل رہے ہیں امکانات یہی نظر آتے ہیں کہ اگر چوہدری برادران کو برات کا شہ بالا بنا دیا جائے تو دل والے دلہنیا لے جائیں گے۔

تازہ ترین