• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غوث بخش بزنجو پاکستانی سیاست میں تحمل اور برداشت کا استعارہ تھے۔ فرماتے تھے کہ ’سیاست انسانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ابلاغ کا عمل ہے۔ یہ فرد اور معاشرے کی پیچیدگیوں کو سمجھ کر اپنا راستہ نکالنے کا ہنر ہے۔ یہ ہنر کسی یونیورسٹی میں یا نصابی کتاب سے نہیں سیکھا جا سکتا۔ سیاسی کارکن سیاسی عمل کے ذریعے ہی سیاست سیکھتے ہیں‘۔ ہمارے ہاں کچھ حلقوں کو یہ اعلان کرنے کا بہت شوق ہے کہ ہمارے سیاست دان سیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ یہ رائے درست نہیں۔ ایک وقت تھا جب میاں نواز شریف نے سیاسی جلسے میں فرمایا کہ میں پیپلز پارٹی کا نام سنتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔یہ وہ دن تھے جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے جلسوں میں سیاسی مخالفین کو چوہا قرار دیتی تھیں۔ سیاست کا عمل آگے بڑھنے اور سیکھنے کا ایک اشارہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے کچھ جلسوں میں صدر زرداری کے بارے میں نامناسب لب و لہجہ اختیار کیا تو میاں نواز شریف نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح ریٹرننگ افسروں کے غیر سنجیدہ رویّے سے جمہوری عمل کی ساکھ پر حرف آنے کا اندیشہ پیدا ہوا تو اس پر صدر زرداری کا بیان ضبط اور تحمل کا آئینہ دار تھا۔ ہماری سیاست میں بالغ نظری کے یہ مظاہرے محض بڑی جماعتوں تک محدود نہیں۔ میاں احسان وائیں پنجاب میں اے این پی کے سینئر اور پرانے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک مجلس میں ان سے سوال کیا گیا کہ ستّر کی دہائی میں نیپ اور پیپلزپارٹی کے نزاع کو کیسے دیکھتے ہیں۔ فرمایا، ہمیں تو اصولی طور پر ایک دوسرے کا حلیف ہونا چاہئے تھا، شخصی غلطیوں نے ہمیں تصادم کے راستے پر دھکیل دیا ۔ سیاسی کارکنوں کو یاد ہے کہ بھٹو صاحب کے دور میں میاں طفیل محمد مرحوم کے ساتھ بدسلوکی نے جماعت اسلامی کو مسلک کی حد تک پیپلزپارٹی کا مخالف بنا دیا۔ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی میں باہم نفرت کی خلیج نے جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی کے رہنما حافظ سلمان بٹ سے اس تنازع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کسی شخص یا جماعت پر الزام تراشی کے بجائے یک لفظی جواب دیا۔Uncalled for یعنی اگر ایسا نہ ہوتا توبہتر تھا۔ اب سے کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم اور اے این پی میں اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے۔ انہی دنوں میں ایم کیو ایم کے ایک نوجوان رہنما نے ایک سوال کے جواب میں بے ساختگی سے کہا کہ ہم نے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر بحث مباحثے کے دوران فلاں فلاں امور پر اے این پی کے رہنماؤں سے بہت کچھ سیکھا۔
تو صاحب سیاسی رہنما اپنے تجربات کی روشنی میں سیکھتے ہیں۔ سیاست کی اپنی ناگزیر حرکیات ہوتی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ سیاسی رہنما اپنی پرانی نفسیاتی کمزوریوں کے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہو کر سیاسی کارکنوں کو وسعت نظری اور تحمل کی تعلیم نہیں دیتے۔ ان کے خدشوں کو دراصل وسوسے کہنا چاہئے۔ انہیں گمان ہوتا ہے کہ اگر وہ گلی کوچے کی سیاست سے ہٹ کر کارکنوں کو حقیقی سیاسی عمل اور فیصلہ سازی کی تربیت دینے لگے تو سیاسی کارکنوں پر سے ان کا مکمل اختیار کمزور پڑ جائے گا۔ دوسرے یہ کہ کارکن یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ قیادت نے درون خانہ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے یعنی ان کا سیاسی تشخص مجروح ہو گا۔ خود کو ناگزیر قرار دینے کی گنجائش کم ہو جائے گی۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی کارکنوں اور عوام کا مجموعی مزاج تصادم کی نفسیات میں گڑا ہے۔ سیاسی کارکن اپنے رہنما کے گن گاتا ہے لیکن دوسری سیاسی جماعتیں اور رہنما اسے صرف چور اور لٹیرے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست میں اختلاف کے بجائے نفرت کی جاتی ہے، یہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ اپنی سیاسی جماعت اور اپنے رہنما سے وابستگی کے لئے ضروری ہے کہ مخالف سیاسی گروہ کو چاہے پسند نہ کیا جائے لیکن اس کا سیاسی حق تو تسلیم کیا جائے۔ سیاست میں کوئی مستقل مخالف یا مستقل حلیف نہیں ہوتا۔ سیاست میں ناگزیر طور پر سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ جب ہم اپنے سیاسی مخالفین کو بیک جنبش لب وطن دشمن، چور اور لٹیرے کہتے ہیں تو دراصل ہم سیاست کے عمل ہی کو برا کہتے ہیں۔ اگر ہم نے سیاسی عمل ہی کو مردود قرار دے دیا اور صرف اپنے رہنما کو استثنیٰ دیا تو بھائی اسے مے خانہ کہتے ہیں، یہاں پگڑی اچھلتی ہے،اگر سیاست ایک غیر شریفانہ سرگرمی ہے اور سیاست دان محض مفاد پرست افراد کا ایک ٹولہ ہیں تو آپ کے پسندیدہ سیاست دان تک بھی اس آلودگی کے چھینٹے پہنچیں گے۔
نذیر ناجی روایت کرتے ہیں کہ 2002ء میں جب قانون ساز اداروں کی رکنیت کے لئے یونیورسٹی کی ڈگری لازم قرار دی جا رہی تھی تو پرویز مشرف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جو سیاست دان بنے پھرتے ہیں، یہ قانون بننے کے بعد ان میں آدھے لوگ سیاسی منظر سے غائب ہو جائیں گے۔ جناب سیاست دان گلی کوچوں اور کھیتوں کھلیانوں میں خاک آلود ہوتا ہے تو اسے لوگوں کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ سیاست مارشل لا لگانے کا نام نہیں کہ گھر بیٹھے خود کو فیلڈ مارشل قرار دے لیا اور جب چاہا چھڑی گھما کر چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اختیار کر لیا۔ محمد علی جناح اپنے انتقال کے65برس بعد بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ بھٹو پھانسی پانے کے34سال بعد بھی زندہ ہے۔ آپ کہتے تھے اکبر بگٹی کی کیا حیثیت ہے، ایک قبائلی سردار ہی تو ہے۔ سات برس گزر گئے، بلوچ دلوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ ابھی سرائیکی رہنما تاج محمد لنگاہ کا انتقال ہوا ہے ۔ غالباً انہوں نے کبھی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کی لیکن سرائیکی بھائیوں سے پوچھئے کہ ان کے دکھ اور ملال کی کیا کیفیت ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے عہد جبروت میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کا ہر جتن کر دیکھا ۔ اب وہ خود وطن واپس آئے ہیں تو اپنے استقبال کا اس والہانہ جذبے سے موازنہ کر لیں جو اکتوبر2007ء کو کراچی پہنچنے پر بے نظیر کے حصے میں آیا تھا۔ اب تو پرویز مشرف ماشاء اللہ انتخاب بھی لڑ رہے ہیں۔ بارہ مئی کو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ نواز شریف کی سیاست اور پرویز مشرف کی بزعم خود ذہانت میں کیا فرق ہے۔
سیاسی قیادت کے بارے میں حقارت پرویز مشرف ہی پر موقوف نہیں ۔ ایک خضر صورت بزرگ الیکشن کمیشن میں بھی بیٹھے ہیں۔ کچھ سرکاری اہل کار ہیں کہ اخبار کے صفحات پر جمہوریت کے خلاف زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ اس سلسلہٴ آزار بندی کے کچھ چیلے ریٹرننگ افسروں کا روپ دھار کر انتخابی امیدواروں کی توہین کے درپے ہیں۔ ایک مہینہ باقی ہے۔ پاکستان کے رہنے والے 11 مئی کی دھوپ میں گھروں سے نکل کر خود ہی اعلان کر دیں گے کہ سیاست ایک متمدن معاشرے کی سب سے قابل احترام اجتماعی سرگرمی ہے ۔ سیاست ہی سے قوم کا معاشی ، ثقافتی اور تہذیبی مستقبل صورت پذیر ہوتا ہے تاہم سیاست اور اہل سیاست کا احترام اجاگر کرنے کے لئے سیاسی قیادت کو زیادہ شعوری سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ 27دسمبر2007ء کی شام جب میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد راولپنڈی کے اسپتال میں پہنچے تو ان کی آنکھیں نم تھیں۔ کیا وہ دکھاوا کر رہے تھے؟ یہ خیال بھی نامناسب ہے۔ انہیں اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں علم تھا کہ ایک قومی رہنما کو یوں منظر عام سے ہٹا دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس سے کون سی قوتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اس سے سیاسی قیادت مجموعی طور پر بے دست و پا ہوتی ہے۔ گویا ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت وسعت نظری سے بے بہرہ نہیں لیکن اس شعور کو سیاسی سرگرمی کی تمام سطحوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین