• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے پچھلے کالم میں چند ایسے افراد کے نام لکھ دیئے تھے جو نگرانوں میں شامل ہیں مگر ان کا دور پار سے پیپلزپارٹی کے ساتھ واسطہ رہا ہے۔ اسی کالم میں بارہا میاں نواز شریف اور عمران خان سے (عمران خان کا نام اضافی ڈالا گیا تھا) کہا کہ وہ جانبداری پر خاموش کیوں ہیں۔ میاں صاحب اور ان کی پوری پارٹی توجہ دلاؤ نوٹس کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوئی تو جانبدار نگران خود ہی بول پڑے۔ سب سے بڑی اور واضح مثال نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب خان ہیں۔ ایک زمانے میں میرے ایک سابق بیوروکریٹ دوست ظفیر عباسی کا ملک حبیب خان کے ہاں بہت آنا جانا تھا، سو مجھے بھی متعدد مرتبہ عباسی صاحب کے ساتھ ملک حبیب خان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، ہمارا جانا شام کو ہوتا تھا اور پھر رات گئے تک محفل جمی رہتی تھی۔ مجھے ملک صاحب کے سیاسی خیالات سن کر حیرت نہیں ہوئی البتہ انہوں نے سرعام جو باتیں کردی ہیں وہ نہیں کرنی چاہئے تھیں۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ ”جب میں نواز شریف کے پاس بیٹھتا ہوں تو لگتا ہے کہ حقیقی لیڈر وہی ہیں، انہیں ہی پاکستان کا دکھ درد ہے“اور پھر یہ کہنا کہ اگر انہیں ووٹ ڈالنے کا موقع ملا تو وہ شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیں گے۔ یہ ملک حبیب خان کے دل کی وہ باتیں ہیں جو وہ سرعام لبوں پر لے آئے اور جانبدار بن بیٹھے۔ اب آپ کو ن لیگ کی خاموشی کی سمجھ آرہی ہوگی۔ اب ایک نظر الیکشن کمیشن کی جانبداری پر بھی ڈال لیں جو نہ تو قائم علی شاہ کو سابق وزیراعلیٰ سمجھتا ہے نہ ہی الیکشن کمیشن کی نظر میں میاں منظور احمد وٹو سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نزدیک چوہدری شجاعت حسین، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کبھی وزیر اعظم نہیں رہے، نہ ہی چوہدری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ پر براجمان رہے ہیں۔ شفافیت کے دعویدار الیکشن کمیشن کے نزدیک صرف میاں نواز شریف سابق وزیر اعظم رہے ہیں اور اس کے علاوہ میاں شہباز شریف ماضی میں وزیر اعلیٰ رہے ہیں لہٰذا ان دونوں کی جان بچانا نگرانوں کا فرض ہے باقی مذکورہ بالا پانچ چھ شخصیات کو سیکورٹی کی ضرورت شاید اس لئے نہیں ہے کہ یہ شخصیات لوہے کی بنی ہوئی ہیں۔ بس سیکورٹی کے 761/اہلکاروں کا فرض ہے کہ وہ صرف اور صرف میاں برادران کا تحفظ یقینی بنائیں۔ رہے عمران خان تو انہیں سیکورٹی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا یقین بڑا پختہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہوسکتی۔ الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ کے نزدیک ”یقین“ سے بڑی سیکورٹی اور کیا ہوسکتی ہے۔خواتین و حضرات! میرے لئے ڈی آئی خان کا الیکشن بڑا اہم ہے جہاں میرے تین دوست ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں مولانا فضل الرحمن، مسرت شاہین اور فیصل کریم کنڈی ایک ہی نشست پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو فیصل کریم کنڈی سے زیادہ مسرت شاہین نے پریشان کر رکھا ہے خاص طور پر اس بات کی پریشانی ہے کہ مسرت شاہین نے قرآنی سورتیں صحیح سنادی ہیں جبکہ مولانا کی پارٹی کے کچھ مولوی یہ ”پل صراط“ پار نہیں کرسکے۔ فیصل کریم کنڈی کی پریشانی یہ ہے کہ ایک اور کنڈی پی ٹی آئی سے الیکشن لڑ رہا ہے۔پی ٹی آئی سے یاد آیا کہ گزشتہ سے پیوستہ روز اسلام آباد کے ایک شاندار ہوٹل میں عمران خان نے اپنی پارٹی کے چند اکابرین کے ساتھ پارٹی منشور پیش کیا، ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ پارٹیاں منشور پیش کرتی ہیں اور پھر بھول جاتی ہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور کم و بیش ایک جیسے ہوتے ہیں، بس رنگ کا فرق ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کا منشور تمام پارٹیوں سے الگ تھلگ اور بالکل جداگانہ ہے۔ اس منشور کو ڈاکٹر شیریں مزاری نے خوبصورت انگریزی میں پرویا ہے، فردوس شمیم نقوی نے اسے تیارکیا ہے اور اس تیاری میں جہانگیر ترین کی ان پالیسیوں کا بڑا دخل ہے جو وہ پورا سال تیارکرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن دنوں دوسری پارٹیاں ”لوٹے“ تلاش کررہی تھیں، تحریک انصاف ہر شعبے پر ماہرانہ پالیسی کا اعلان کررہی تھی انہی مختلف پالیسیوں کو پیش نظر رکھ کر تحریک انصاف کا منشور تیار کیا گیا ہے اور پھر عمران خان کی اس بات کو مسترد کرنا آسان کام نہیں کہ… ”جن پارٹیوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا، وہ تو بہتری نہیں لاسکتیں، ان کے آنے سے تو مزید تباہی ہوگی“۔
صاحبو!عمران نے اعلان کیا تھا کہ وہ 25 فیصد ٹکٹ ملک کے ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو دینگے جن کے پاس تعلیم ہے مگر پیسہ نہیں، آفرین ہے کہ انہوں نے یہ وعدہ الیکشن سے قبل ہی پورا کردیا بلکہ25فیصد کے بجائے 35فیصد سے زائد ٹکٹ نوجوانوں کو جاری کردیئے، ان کی الیکشن مہم کیلئے فنڈ قائم کردیا۔ اسی سے جاگیرداری کا جادو ٹوٹے گا، اسی سے سیاست میں کرپٹ افراد کا راستہ رکے گا۔
عمران خان نے ہمت نہ ہارنا لڑکپن سے سیکھا ہے جب وہ کرکٹر تھا وہ میدان میں اترتا تھا تو کم حوصلہ ٹیم کے حوصلے کو بڑھاتا چلا جاتا تھا اب اس کا سیاست میں بھی یہی چلن ہے۔ اسے ذرہ برابر پروا نہیں کہ اس کی پارٹی کو کون کون چھوڑ رہا ہے، وہ اصول نہیں توڑتا، اصولوں پر کاربند رہتا ہے ورنہ ہمارے ہاں تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے علاوہ سب کو قبول کرلیا ہے صرف پرویز مشرف اور چوہدری رہ گئے ورنہ تو سب رائے ونڈ کے اجتماع میں شریک ہیں۔
تحریک انصاف کا منشور سب سے جاندار ہے نوّے روز میں کرپشن کے خاتمے کا عہد، تین سال میں لوڈشیڈنگ سے نجات، 90دنوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور زرعی ٹیکس کا نفاذ، ترقی کرتے ہوئے ایک بدلے ہوئے پاکستان کی خوبصورت تصویر اس منشور کے باعث ہی ممکن ہے اس منشور کے تراجم پاکستان کی تمام زبانوں میں کردیئے گئے ہیں۔ چھوٹے کسان زرعی ٹیکس سے ہرگز پریشان نہ ہوں کہ یہ ٹیکس پچاس ایکڑ سے زائد ملکیت پر لگے گا، اداروں کو ازسرنو ترتیب دیا جائے گا کہ ماضی کی حکومتوں نے اداروں کو تباہ حال کرکے رکھ دیا تھا بس تازہ عہد کے ساتھ یہی کہ
خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
تازہ ترین