• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عاشقِ رسولؐ، پیکرِ علم و عمل ’ مولانا مفتی محمد نعیم ؒ ‘

ڈاکٹر سعید احمد صدیقی

شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد نعیم نورالله مرقدہ علمائے حق کے قافلے کے سالار ، عقیدہ ختم نبوّت کے عظیم مجاہد، دینی علوم و علماء کے سرپرست اور بلند پایہ عالم دین کی حیثیت سے ساری زندگی علمی و دینی خدمات اور علوم نبوی کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل رھے ۔مولانا مفتی محمد نعیمؒ اپنے اسلاف کا نمونہ تھے ، عاجزی و سادگی کا پیکر تھے ، اس کے ساتھ ہی ایک عظیم مبلغ ، دین کے داعی ، عہد جدید کی ایک لاثانی شخصیت ،سچے عاشق رسول،عاشق قرآن ، بہادر ودلیر دینی رہنما،اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی اور جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم تھے ، جن کا دم آج کے دور میں بڑا غنیمت تھا۔

جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن:- شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد نعیمؒکو اس ادارے ، اس کے اساتذہ کرام اور اس کے در و دیوار سے والہانہ عشق تھا۔ آپ نے درجہ اعدادی سے لے کر دورہ حدیث تک اس عظیم جامعہ سے وقت کے ممتاز علمائے کرام اور دینی فن کے مشہور اساتذہ کرام سے اکتساب فیض کرتے ہوئے درس نظامی کی تکمیل کی ، آپ نے ہمیشہ ہر امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی اور جامعہ کے ممتاز ترین طلبائے کرام میں آپ کا شمار ہوتا کہ جن پر جامعہ اور اس کے اکابرین بھی فخر فرماتے ، درس نظامی کی تکمیل کے بعد سولہ سال آپ نے بحیثیت مدرس اس جامعہ میں خدمات انجام دیں۔

مفتی صاحب ؒ زمانہ طالب علمی ہی سے علمائے کرام اور دین کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے ۔دوپہر کو جب تمام طلباء کھانا کھانے اور آرام میں مشغول ہوتے۔ مفتی صاحب مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی اور دیگر اساتذہ کرام کی خدمت میں مصروف عمل ہوتے ، ان کے لئے کھانا لانا ، کھانا کھلانا ، ہاتھ دھلانا اور دیگر خدمت میں مصروف عمل رہتے اور یہ سلسلہ آپ کے پورے زمانہ طالب علمی پر محیط تھا اور پھر جو وقت بچ جاتا آپ مطالعے میں مصروف ہوتے ۔ قاری عبد الحلیم نور الله مرقدہ آپ کے والد ماجد تھے ، آپ بین الاقوامی سطح کے قاری تھے ، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ممتاز ممتحن تھے ، آپ کا مخصوص لہجہ اور پرسوز تلاوت سامعین پر سحر طاری کر دیتی اور سننے والے کی خواہش ہوتی کہ قاری صاحب پڑھتے جائیں اور ہم سنتے جائیں قاری عبد الحلیم جوکہ مفتی نعیم کے والد ماجد تھے ، انہوں نے ایک طویل عرصے تک تبلیغی مرکز مکی مسجد اور جامع مسجد بنوری ٹاؤن میں تراویح پڑھائی جس میں شرکت کے لئے لوگ دور دراز سے کھنچے چلے آتے تھے۔

نومسلم خاندان :- مولانا مفتی محمد نعیم کا خاندان نومسلم تھا، ماضی میں آپ کا گھرانہ ایک مشہور و معروف خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ کے دادا کو الله تعالیٰ نے اسلام کی نعمت عظمیٰ سے نوازا اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے،جب کہ مفتی صاحب کے والد گرامی قاری عبد الحلیم کو الله تعالیٰ نے اسلام کی دولت بچپن میں عطا فرمائی اور پھر قرآن پاک حفظ کرکے اور دینی تعلیم سے بہرہ مند ہوکر اسلام کی اور قرآن پاک کی وہ عظیم خدمات انجام دیں جو الله تعالیٰ کے فضل و کرم سے نصیب والوں کو عطا ہوتی ہے۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ شیخ الحدیث مفتی صاحب کے والد گرامی اور مخلص ساتھیوں کی لازوال قربانیوں ، انتھک جد وجہد اور شب وروز مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے، جسے الله تعالیٰ نے شرف قبولیت عطا فرمائی، اس جامعہ میں شہر کے علاوہ اندرونِ ملک اور بیرون ملک کے باون ممالک کے طلباء اپنے آپ کو علوم نبوت سے فیض یاب کرکے حکومتی ، دینی ، عصری اور بین الاقوامی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اس لحاظ سے اس جامعہ کو تمام مدارس میں امتیازی حیثیت حاصل ہے ، مفتی صاحب جامعہ کے تمام امور خود دیکھتے اور مانیٹر کرتے اس سلسلے میں مفتی صاحب کوہمیشہ فعال اور متحرک دیکھا گیا ۔

شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد نعیم ؒکی ساری زندگی بین المسالک ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کی عملی کوشش و کاوش میں گذری ، آپ نے کبھی فرقہ وارایت سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا ، مفتی صاحب فرقہ واریت کو وطنِ عزیز اور ملک و ملت کے لئے سم قاتل سمجھتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ وہ عوام الناس میں نہایت مقبول تھے ، حکومتی حلقوں میں بھی آپ کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی ، آپ تمام مکاتب فکر میں یکساں مقبول تھے اور تمام مکاتب فکر کے علماء ، مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سیاسی زعماء آپ کا بے حد احترام کرتے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے مفتی صاحب سے رجوع کرتے ۔مفتی صاحب کبھی بھی کسی سیاسی جماعت یا پارٹی میں شامل نہیں رہے، مگر اہل حق کی ہر جماعت کو اپنی جماعت سمجھتے اور اہل حق کی ہر جماعت مفتی صاحب کو اپنا نمائندہ سمجھتی اور مفتی صاحب ہر جائز مسئلے میں بھرپور تعاون فرماتے ۔

فعال و متحرک شخصیت :-مولانا مفتی محمد نعیم ؒ انتہائی فعال اور متحرک شخصیت کے ساتھ ساتھ انتہائی خلیق، بردبار اور منکسر المزاج تھے۔ جس کا مشاہدہ ہم نے مفتی صاحب مرحوم سے کئی ذاتی اور نجی ملاقاتوں میں کیا، ان سے ملنے والا ہر فرد ان کا معترف نظر آتا ، ہمیشہ انہیں کسی نہ کسی معاملے میں مصروف عمل پایا ، اکثر و بیشتر سیاسی زعماء ،علمائے کرام ، بین الاقوامی رہنما اور سفراء حضرات جامعہ بنوریہ عالمیہ کے دورے پر تشریف لاتے اور مفتی صاحب اور جامعہ دونوں سے متاثر ہوکر جاتے ، جب مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کی مشینری انتہائی سرگرم تھی، اس زمانے میں بھی اس جامعہ کا نام ادب سے لیا جاتا، اس کے باوجود مفتی صاحب نے سول سوسائٹی کو متحرک فرمایا اور مدارس کے دفاع کے لئے میدان عمل میں سرگرم رہے اور الحمدلله اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی ، چونکہ مدارس بین الاقوامی طاقتوں کو بہت کھٹکتے ہیں کہ وطنِ عزیز اور اسلام کے پاسبان اور سپاہی انہی جامعات سےتیارہوتےہیں اور ہمیشہ قومی اداروں کےہم قدم ہوتے ہیں، اس لئے مدارس کے خلاف ریشہ دوانیاں ہمیشہ جاری رہتی ہیں ۔ مفتی صاحب جامعہ کے علاوہ سیکڑوں مدارسِ ومساجد کی سرپرستی فرماتے اور ان کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہتے ، مفتی صاحب کی شخصیت ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھی جس کے سائے میں ہر ایک سکون محسوس کرتا۔

تصنیف و تالیف :- قدرت نے مفتی صاحب کو لکھنے لکھانے کا خاص ملکہ ودیعت فرمایا تھا اور وہ اکثر و بیشتر تصنیف و تالیف میں مصروف عمل رہتے۔ خصوصیت کے ساتھ روزنامہ جنگ کے مشہور کالم " اقرأ اسلامی صفحہ" میں پابندی کے ساتھ شائع ہونے والے آپ کے مضامین ہیں جن کو ہر خاص و عام بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا کیونکہ وہ ہمیشہ موقع و محل کی مناسبت سے ہوتے ، انتہائی معلوماتی ہوتے، عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے اور مکمل قرآن وحدیث کی روشنی میںہوتے ۔

جنازہ و سفر آخرت :- شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد نعیمؒ کا جنازہ بلاشبہ اس شہر کے بڑے جنازوں میں سے ایک عظیم الشان اجتماع تھا۔ شہر قائد امڈ آیا تھا، تا حدِ نگاہ انسانی سروں کا ہجوم تھا، جبکہ ملک کے کونے کونے سے بھی کثیر تعداد میں لوگ آئے تھے ، وطنِ عزیز کے جید علمائے کرام نے جنازے میں شرکت فرمائی، جبکہ تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علمائے کرام اور مختلف شعبوں سے وابستہ نمایاں افراد نے مفتی محمد نعیم کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ، راقم الحروف کی اس موقع پر قاری حنیف جالندھری، مولانا تنویر الحق تھانوی ، مولانا محمد راشد سومرو اور دیگر اکابرین سے ملاقات رہی ۔ 

نمازِ جنازہ اپنے وقت کے ولی کامل شیخ الحدیث فنا فی الله مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے پڑھائی ، جنازے کے شرکاء مفتی محمد نعیم ؒ مرحوم کا ذکر بڑی عقیدت و احترام سے کررہے تھے، لیکن غم میں ڈوبے ہوئے حزن و ملال سب کے چہروں سے نمایاں تھا۔ مولانا مفتی محمد نعیمؒ آخری وقت تک دین متین کی خدمت اور ترویج و اشاعت میں مصروف عمل رہے ۔حق اور سچ کی یہ آواز، قال الله وقال الرسول کی یہ صدا 21 جون 2020 بعد نمازِ عصر جامعہ بنوریہ کے احاطے میں میٹھی نیند سوگئی ،جہاں ہمیشہ قرآن پاک کی تلاوت اور قال الله وقال الرسول کی صدا گونجتی رہے گی۔

تازہ ترین