• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائد اعظم اور اقبال کے پاکستان میں جو بیمار ( اور اب تباہ کن ) سیاسی نظام بیوروکریسی، فوجی جر نیلوں، جاگیرداروں اور ان کے گٹھ جوڑ سے معمولی سکت کے بنائے گئے مصنوعی سیاست دانوں نے مل کر تشکیل دیا ، وہ آج اپنی انتہائی شکل میں آکر شکست و ریخت سے دوچار ہونے کو ہے۔ صورت یہ ہے کہ سارا ملکی حکومتی و سیاسی نظام چند سیاسی خاندانوں کے غلبے کی بنیا د پر قائم ہے ۔ کوئی درجن بھر ان خاندانوں کوعملی سیاست سے خارج کر دیا جائے تو قومی سیاست کھوکھلی ہو کر رہ جائے گی ۔ دوسرا اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ ملکی سیاست پر فقط انہی کا سیاسی غلبہ پاکستان کے مجموعی پوٹینشل سے ہونیو الی ملکی ترقی کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ۔ این آر او کی سیاہی جہاں دن کی روشنی کی طرح واضح ہے، وہاں اس کا ایک فائدہ بھی اتنا ہی عیاں ہے ۔ وہ یہ کہ حکمران ٹولے کی برسوں کی لوٹ مار ، اختیارات کے ناجائز استعمال کی انگنت کہانیوں ، بد ترین حکمرانی کے زمرے میں آنے والے ایک سے بڑھ کر ایک سینکڑوں اقدامات، کھلی کھلی ٹیکس چوری اور قرض خوری کے بعد مشرف کی9سالہ سول۔ملٹری حکومت کو ختم کر کے مکمل جمہوریت کی بحالی کے لئے این آر او کا جو سیاہ قانون نافذ ہوا ، وہ آخری ٹیسٹ تھا کہ این آر او زدہ اور ان کے آٹھ ہزار حواری اب توبہ کر کے ملک میں حقیقی جمہوریت کے لئے مطلوب صاف ستھری سیاست کا آغازکرتے ہیں یا نہیں ؟
وقت نے ثابت کیا کہ اسٹیٹس کو ء میں غلبہ پانے والی سیاسی قوتیں ناقابل اصلاح ہیں ۔ ان کی حکومت عوام دوست ثابت ہو ئی نہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف مطلوب بے رحمانہ چیک قائم کیا ، بلکہ دونوں نے اسٹیٹس کوء کو جاری رکھنے کے لئے مفاہمت مفاہمت کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ او پر کرپشن کا بازار گرم ہو گیا تو نیچے بھی خاندانی جمہوریت کا ہی غلبہ رہا ۔ جمہوری اقدار کا فروغ تو کیا ہوتا ، آغاز بھی نہ ہوا ۔ ملک کا ہر ادارہ تباہ ہوتا گیا ، مستحکم فقط بد ترین طرز حکومت سے ”اتحادیوں “کا اتحاد ہوا۔ یوں این آر او کے بعد اسٹیٹس کو ء کی ریاست پاکستان میں لوٹ مار مچانے والی سیاسی قوتوں کے ناقابل اصلاح ہونے کی تصدیق ہو گئی ۔ اصلاح کا عمل شروع ہوجاتا تو پھر این آر او کو بھی شاید عدلیہ میں چیلنج کر نے کی نوبت نہ آتی ۔ سو ، جمودی کیفیت کی بد ترین شکل نے وہ صورت حال پید اکر دی کہ اسٹیٹس کو ء کی طاقتیں کمال طریقے سے اس کی زد میں آتی گئیں ، حتی کہ ملک اور عوام پر قائدین کی قبروں کو ترجیح دینے والا وزیر اعظم ، وزیر اعظم رہا اور نہ سیاست کے لئے اہل ۔ اس ناگزیر تغیر میں ، جسے این آر او روک نہ سکا ، عدلیہ اور فوج سیانے ثابت ہو ئے جو اپنے اپنے اصل کردار کی طرف لوٹ گئے۔ نئی صورت حال میں میڈیا کی آزادی اسٹیٹس کو ء کے عروج میں بھی قوم کے لئے رحمت ثابت ہوئی ، ورنہ تو وہ صورت حال پیدا ہی نہ ہوتی جس میں یہ آج جکڑ کر چٹخ رہا ہے ۔ میڈیا کی آزادی ، عدلیہ کی سر گرمی اور عوام کی جزوی بیداری میں یہ احساس جا گ کر باہر آ گیا کہ اب جب قوم نے ہر طرح کی لوٹ مار اور بد ترین حکمرانی کے باوجود حکمرانوں کو اقتدار کی باری پوری آزادی سے مکمل کر نے دی ہے تو ، 11مئی کو ہونیو الا الیکشن بھی ہر صورت بمطابق آئین ہی ہونا چاہیے ۔ الیکشن کمیشن اس میں سنجیدہ اور سپریم کورٹ اس کی پوری سر پرستی کرتی نظر آ رہی ہے ۔ پہلی مرتبہ قوم انتخابی عمل کو آئین کے تابع کرنے کے لئے بیدار ہو ئی ہے۔ عوام پر خاندانی جمہوریت کے پجاریوں کی اس چیخ وپکار کا کوئی اثر نہیں کہ سیاست دانوں کو کچھ نہ کہا جائے ، خدارا ان کی کردار کشی نہ کی جائے ، یہی تو ہیں جو نظام جمہوریت چلا رہے ہیں۔ قوم الیکشن کمیشن کو آئین و قانون کے مطابق انتخاب کر انے کے معاملے میں مکمل خود مختار دیکھنا چاہتی ہے اور عدالتیں بھی اس کی معاونت کے لئے عملاً سر گرم ہیں۔ جعلی ڈگری ہولڈرز کو پکڑنے اور سزا دینے میں الیکشن کمیشن اور عدالتیں جزوی طور پر ہی کامیاب ہوئی ہیں ، لیکن عوام میں یہ احساس شدت سے موجود اور زبان زد عام ہے کہ انتخابی پراسیس میں اب بھی بہت سے بڑی مچھلیاں 62،63کی چھلنی سے نکل کر انتخابی امیدوار بننے کو ہیں ۔ ڈگریوں پر کڑی چیکنگ سے الیکشن سکروٹنی پر عوامی اعتماد کا جو گراف بہت تیزی سے بڑھا تھا ، وہ اب کم ہوا ہے ۔ رہی سہی کسر ریٹرننگ آفیسروں کے سوالوں سے درخواست دہندگان میں پیدا ہونے والے Panic نے نکال دی ہے ، جس پر عام لوگ بھی ششدر ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔
لاہورہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پنجاب میں ریٹرننگ آفیسروں کی اوٹ پٹانگ سوالوں کی بوچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تو یہ ان سیاسی طاقتوں اور ان کے حواریوں کی سازش ہی معلوم دیتی ہے جنہیں انتخابی عمل میںآ ئین کی آرٹیکلز 62،63کا جزوی اطلاق بھی ہضم نہیں ۔ سیاست دانوں اور ان کی سیاست و جمہوریت کے تقدس کی حفاظت پر معمور سیاسی گھرانوں کے ابلاغی معاونین ، ”انتخاب بمطابق آئین“کے عمل پر بڑے پریشان ہیں ، یوں لگتا ہے کہ سکروٹنی کا اعتبار ختم کر نے کے لئے جو ریٹرننگ آفیسر اپنی حدود سے تجاوز کر کے پراسیس کو مشکو ک بنا رہے ہیں، وہ یا تو الیکشن کمیشن میں گھسائی گئی کالی بھیڑیں ہیں یا وہ روایتی انتخابی طریقوں پر اکتفا ء کر نے والے سیاست دانوں کے ہاتھوں بکے ہوئے کارندے ۔
اس کا واضح اشارہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کی اس نشان دہی سے بھی ملتا ہے جس میں فاضل عدالت نے پنجاب کے ریٹرننگ آفیسرز کو فیڈرل بوڈ آف ریونیو، نیب اور سٹیٹ بنک کا بھیجا ہو ا وہ تمام ریکارڈ طلب کر لیا جس کی روشنی میں ریٹرننگ آفیسر سکروٹنی پراسیس مکمل کر نے کے پابند تھے لیکن بہت بڑی تعداد میں ریٹرننگ آفیسرز ا س ریکارڈ کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔ اس پر فاضل عدلیہ کو ریمارکس دینے پڑے ہیں کہ پنجاب کے ریٹر ننگ آفیسرز سکروٹنی میں تینوں متذکرہ سرکاری اداروں کا مہیاکیا ہو ا ڈیٹا استعمال نہیں کر رہے ۔ جیسا کہ جج صاحب نے کہا کہ ایک بھی کاغذات نامزدگی ٹیکس کی عدم ادائیگی پر منسوخ نہیں ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے بھی استفسار کیا کہ وہ واضح کر ے کہ ریٹرننگ آفیسروں نے تینوں سر کاری اداروں کے بھیجے گئے ریکارڈ کو اپنی سکروٹنی میں استعمال کیا ہے؟آرٹیکلز 62،63کے اطلاق کا یہ کیس تو اب عدالت میں زیر سماعت ہے ، اور وہی اس کا فیصلہ کرے گی ، لیکن الیکشن کمیشن کی کار کردگی کے حوالے سے عوام کے اعتماد میں کمی ضرور آ رہی ہے ، تبھی تو عدلیہ نے کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ واضح کر ے کہ مہیا کیے گئے ڈیٹا میں سے کتنا ریکارڈ اسکروٹنی میں استعمال کیا ۔ یہ صورت حال واضح کر رہی ہے کہ بعد از انتخاب بھی اعتراضات اور انتخابی عذر داریوں کی شکل میں منتخب ہو ئے نمائندگان کا احتسابی عمل جاری رہے گا ۔ ضمنی انتخابات کی تعداد بھی غیر معمولی ہو سکتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخاب میں ایسے ہی امیدواروں کو آگے کریں جن کا ریکارڈ صاف ستھرا ہے وگرنہ بعد از انتخاب نظر آتا انتخابی عمل ، سیاست دانوں کے لئے مشکلات پیدا کر یگا جبکہ صورت حال ایسی بن چکی ہے کہ انتخاب جیت کر اور حکومت تشکیل دے کر بھی ، حسب سابق احتسابی اداروں اور ان کے جاری احتسابی عمل کو دبایا نہ جا سکے گا ۔
تازہ ترین