• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہمارے کالم کا عنوان ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے جسے عظیم المرتبت شاعرہ نکہت افتخار نے تخلیق کیا جو یہ ہے، جانے کس وقت کوچ کرنا ہو؍ اپنا سامان مختصر رکھیے۔ اسے پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے بےاختیار اشک ہائے ندامت کے جھرنے بہہ نکلے۔ کورونا مرض نے پہلے ہی زندگی کی بےثباتی کا ایک گہرا تاثر قائم کر رکھا تھا لیکن نکہت صاحبہ کے شعر نے دل پر کچھ ایسا اثر کیا کہ زندگی کے رائیگاں چلے جانے کے شدید احساس نے میرا وجود جھنجھوڑ ڈالا ۔ اللہ کے آخری نبیؐ نے اپنی پوری حیاتِ طیبہ اسی اصول پر بسر کی تھی کہ گھر میں سامان جمع نہ کیا جائے اور جو کچھ ہے، اسے سونے سے پہلے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے مگر ہم اور ہمارے ارمانوں اور خواہشوں پر دم دینے والے اہلِ اقتدار سیم و زر کے پجاری بن گئے ہیں اور ان کے ذہن سے یہ خیال ہی نکل گیا کہ جانے کس وقت کوچ کرنا پڑ جائے۔

میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے فیلڈ مارشل ایوب خان اور ان کے بعد قائم ہونے والی سیاسی اور فوجی حکومتیں قریب سے دیکھیں اور مجھے اپنے حکمرانوں میں چند چیزیں مشترک نظر آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ زیادہ سے زیادہ اختیار کی لامحدود ہوس، دوسری اقتدار کو طول دینے کی ناتمام خواہش، تیسری اپنے سیاسی حریفوں کو دبانے کی بےکنار تگ و دو اور چوتھی ان اداروں کی آزادی سلب کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش جہاں متبادل قیادت پروان چڑھ سکتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بیشتر حکمرانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑا جمع کرکے ابن الوقتوں کی ایک پارٹی کھڑی کر لی جس پر سرکاری نوازشات کی بارش ہوتی رہی۔ ہمارے حکمران بالعموم فیلڈ مارشل ایوب خان کی پیروی کرتے آئے ہیں جنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی میڈیا اور یونیورسٹیوں کی آزادی اور خودمختاری پر پوری قوت سے حملہ کیا تھا اور انہی دو محاذوں پر پسپائی آخرکار ان کے عبرتناک زوال کا باعث بنی تھی۔

ہمارے وزیراعظم عمران خان تو سرعام فیلڈ مارشل ایوب خان کے عظیم الشان کارناموں کی تعریف کے پل باندھنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے میں ایک گونہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی میڈیا کی آزادی پر کاری ضرب لگانے کا پروگرام بنایا۔ پہلے جناب فواد چوہدری کو وزیر اطلاعات مقرر کیا۔ دریں اثنا وفاقی اور صوبائی حکومتیں میڈیا کو شدید مالی بحران سے دوچار کرنے کے لیے اشتہارات کے اربوں روپوں پر مبنی واجبات ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہیں۔ نتیجے میں ہزاروں اخبار نویس ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی اخبارات اور چینلز بند ہو گئے اور جو دفتروں میں کام کر رہے ہیں انہیں تنخواہوں کی ادائیگی میں مہینوں کی تاخیر ہو رہی ہے۔ الحمدللہ، فرض شناس اور پُرعزم اربابِ صحافت اس کڑی آزمائش کو بھی برداشت کر گئے، تو پھر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کے مالک اور بڑے نڈر میرِ صحافت جناب شکیل الرحمٰن ایک 34سالہ فرضی مقدمے میں نیب کے ذریعے گرفتار کر لیے گئے۔ اس واقعہ کو 105روز ہو چکے ہیں، مگر ابھی تک ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا ہے نہ ہائیکورٹ نے ابھی تک ان کی ضمانت لی ہے۔ صحافت کو طاقت کے ذریعے دبانے کی اکیسویں صدی میں یہ ایک بدترین مثال ہے جس سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بہت خراب ہوتا جا رہا ہے۔

مزید بدقسمتی یہ ہے کہ پنجاب کی سرکاری جامعات کو حکومت کے زیر اثر لانے کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے یہ گنجائش پیدا کی جا رہی ہے کہ وائس چانسلر کے منصب پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تجربہ کار شخصیت کی جگہ کسی بیوروکریٹ یا ہائیکورٹ کے جج کا تقرر بھی کیا جا سکتا ہے جو یونیورسٹی کی آزادی اور خودمختاری تلف کر دینے کے مترادف ہوگا۔ سنڈیکیٹ، جو یونیورسٹی کا سب سے بڑا فیصلہ ساز ادارہ ہے، اس کے بارے میں اب یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ اس کی صدارت وائس چانسلر کے بجائے گورنر یا وزیراعلیٰ کی منظوری سے کوئی بیورو کریٹ یا ان کا کوئی نمائندہ بھی کر سکتا ہے۔ ان ترامیم کا مقصد تعلیم و تحقیق کی آزادانہ فضا کا گلا گھونٹنا اور بیورو کریسی کو سیاسی مقاصد کے لیے جامعات کے اہم ترین معاملات پر مسلط کرنا ہے۔ نئی صدی میں عالمی سطح پر فکرونظر کی آزادی اور جامعات کی خودمختاری کی تحریک بہت آگے نکل چکی ہے اور یونیورسٹی فیکلٹی کا رتبہ پہلے سے کہیں زیادہ بلند نظر آتا ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ حکومت پنجاب کے اس جابرانہ اقدام کی پوری قوت سے مزاحمت کریں گے جن کو عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف کونسل کے صدر ڈاکٹر پروفیسر ممتاز احمد نے دلیل کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ ہم جامعہ کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کرنے کی ہر کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ پنجاب کی دوسری جامعات بھی حکومت کے اس منصوبے کے خلاف سینہ سپر دکھائی دیتی ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان کا میڈیا بھی اس عظیم الشان تحریک میں ایک قابل قدر کردار ادا کرے گا۔

اس سے قبل، جناب عمران خان کی حکومت نے پاکستان کے نہایت دیانتدار اور جرأت مند فاضل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرکے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے ہفتوں کی سماعت کے بعد وہ ریفرنس خارج کر دیا ہے، مگر سات رکنی بنچ نے حکومت کو فیس سیونگ کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وکلا برادری اور باشعور عوام جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہیں اور عدالتِ عظمیٰ کو اپنے تفصیلی فیصلے میں عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے واضح تشریحات کرنا ہوں گی۔ اب بڑی تیزی سے ماحول ایسا بنتا جا رہا ہے کہ ریاست کے اہم ادارے کورونا کے پھیلاؤ اور معاشی بدحالی روکنے اور بھارت کی ممکنہ مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے جلد حرکت میں آنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ فصیلِ اقتدار کی اینٹیں گرنا شروع ہو گئی ہیں جبکہ گھر اندر سے تقسیم ہے۔ کرپشن میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اور مال بنانے کی ہوس بے قابو ہوتی جا رہی ہے جبکہ کسی کو یاد نہیں کہ کوچ کا وقت کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔

تازہ ترین