• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”جدید علوم میں مہارت ہی ہمیں دنیا میں نمایاں حیثیت دلوا سکتی ہے۔ علم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو دشمنوں کو زیر کرسکتا ہے لیکن افسوس مسلم دنیا کی ساری توجہ دیگر کاموں کی طرف ہے۔ اُمہ میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اللہ کا خوف حکمرانوں کو گمراہی سے بچاتا ہے۔ انصاف اور تعلیم سب کے لئے یکساں ہونی چاہئے“۔ یہ الفاظ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد بن علی العلقاء کے ہیں جو انہوں نے ایک انٹرویو میں کہے۔ مدینہ یونیورسٹی کے شیخ کی باتیں حقائق پر مبنی ہیں۔ کئی صدیوں تک مسلمانوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی ہے اور اس اقتدار کو قائم ودائم رکھنے میں اصل کردار قدیم اور جدید علوم وفنون میں مہارت تھی۔ بغداد، اندلس میں شاندار فن تعمیر کے نمونے آج تک موجود ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے مغلیہ دور کی شاندار عمارات جس تخلیقی صلاحیت سے تعمیر کی گئیں، وہ دو چیزوں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ پہلی فن تعمیر کی تفصیلی مہارت جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے تک کے علوم شامل ہوتے ہیں۔ دوسری کسی ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت ہے۔ جو اس قدر مضبوط ہو کہ وہاں کے حکمران شاندار عمارات تعمیر کرنے کا خرچ برداشت کر سکیں۔ فن تعمیر کی جو تفصیل تاج محل، شیش محل، شالامار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص میں نظر آتی ہے اس سے لگتا ہے ان کے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے۔ تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہرکی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گریں تو گنبد تباہ نہ ہوں۔ مستری کی اینٹیں لگانے سے یہ سب ممکن نہیں۔ اس میں حساب کی باریکیاں شامل ہیں۔ پورا تاج محل نوّے فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اس کے نیچے تیس فٹ ریت ڈالی گئی۔ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور محفوظ رہے۔ ”ٹائل موزیک“ ایک فن ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتیں، دیوار کو منقش کیا جاتا ہے۔ یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلومیٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیر خان میں نظر آتا ہے۔ ان میں جو رنگ استعمال ہوئے، انہیں بنانے کے لئے موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم ہونا ضروری ہے۔ یہی حال ”فریسکو پینٹنگ“ کا ہے، جن کے رنگ چارسو سال گزرنے کے باوجود آج تک مدھم نہیں ہوئے۔ ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی یہ صحیح حالت میں موجود ہیں۔ مغلیہ فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو صرف اس فن تعمیر کو مکمل طورپر سیکھنے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا لیکن پھر ایسا ہوا کہ مسلمان علماء بیک جنبش قلم ”جاہل، اجڈ اور گنوار“ گردانے گئے۔
برصغیر میں یہ ظلم لارڈ میکالے نے کیا۔ اس نے 1833ء میں برصغیر کا سفر کیا۔ وہ بیوی کے ساتھ سیاح کے روپ میں ہندوستان آیا۔ برصغیر کے چپے چپے پر گیا، ہر قسم کے لوگوں سے ملا، ہر ایک کی رائے لی، مسلمانوں کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا، ان کا طرزِ زندگی دیکھا، ان کے کلچر کو دیکھا ان کی اقدار، معاشرت، رہن سہن اور طور طریقے پر ریسرچ کی، ان کے خاندانی تعلقات پر گہرا غور کیا، ان کی تعلیمات کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ بڑوں، چھوٹوں کے حقوق اور ان کی عادات واطوار دیکھیں۔ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں سے ملا۔ ان کے انٹرویوز کئے۔ مساجد کے اماموں سے ملاقاتیں کیں۔ عوام کے مذہبی لگاؤ کو دیکھا۔ وہ برصغیر میں یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا کہ مسلمانوں میں شرح خواندگی تقریباً 90 فیصد ہے۔ باقی دس فیصد بھی ضروری دینی وعصری تعلیمات اور اس کے تقاضوں سے آگاہ تھے۔ وہ تین سال تک گھوما پھرا۔ رپورٹ تیار کی اور واپس انگلستان چلا گیا۔ 1935ء کی دوپہر اس نے برٹش ارکانِ پارلیمینٹ کے سامنے وہ رپورٹ پڑھی۔ اس رپورٹ کی کاپی آج بھی اورینٹل کالج لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ تمہید باندھتے ہوئے اس نے لکھا ”میں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا ہے اس سفر کے دوران کئی حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔ میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا، چوری ڈاکے کا تصور نہیں ہے، یہ علاقہ دولت سے لبالب بھرا پڑا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بھی مالا مال ہے۔ یہ وسیع الظّرف ہیں، یہاں کے لوگ ذہین فطین اور قابل ہیں۔ شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے“۔
اسی طرح مشہور موٴرخ ”ول ڈیورنٹ“ جو مغربی دنیا کا ”امام“ ہے، وہ مغل ہندوستان کے بارے میں کہتا ہے ”برصغیر کے ہر گاؤں میں ایک اسکول ماسٹر ہوتا تھا، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80 ہزار اسکول تھے۔ہر چار سو افراد پر ایک اسکول ہوتا تھا۔ ان اسکولوں میں پانچ مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ گرامر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق“۔ مغلوں کے زمانے میں صرف مدراس کے علاقے میں ایک لاکھ 25 ہزار ایسے ادارے تھے جہاں طبی علم پڑھایا اور طبی سہولتیں میسر تھیں۔ بنگال میں انگریزوں کے آنے سے قبل وہاں 80 ہزار مدرسے تھے“۔ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں ایک سیاح ہندوستان آیا، جس کا نام الیگزینڈر ہلمٹن تھا۔ اس نے لکھا صرف ٹھٹھہ شہر میں علوم وفنون سکھانے کے چار سو کالج تھے۔ ”میجرباسو“ نے تو یہاں تک لکھا ہے ہندوستان کے عام آدمی کی تعلیم یعنی فلسفہ، منطق اور سائنس کا علم انگلستان کے رئیسوں حتیٰ کہ بادشاہ اور ملکہ سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔ ”جیمز گرانٹ“ کی رپورٹ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ وہ کہتا ہے ”تعلیمی اداروں کے نام جائیدادیں وقف کرنے کا رواج دنیا بھر میں سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا۔ 1857ء میں جب انگریز ہندوستان پر مکمل قابض ہوئے تو اس وقت صرف روہیل کھنڈ کے چھوٹے سے ضلع میں پانچ ہزار اساتذہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے تھے۔ یہ تمام علاقے دہلی، لاہور، آگرہ جیسے بڑے شہروں سے دور مضافات میں واقع تھے۔ انگریز اور ہندو مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کا عروج اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچا۔ اس نے برصغیر کی تاریخ میں پہلی دفعہ مسلمان اور ہندو استاد کی تنخواہ برابر کردی۔ اورنگزیب نے پہلی دفعہ تمام مذاہب کے مقدس مقامات کے ساتھ جائیدادیں وقف کیں۔ سرکار کی جانب سے وہاں کام کرنے والوں کے لئے وظیفے مقرر کئے۔ عالمگیر نے پہلی دفعہ ہندوستان میں طب کی تعلیم پر ایک مکمل نصاب بنوایا تاکہ اعلیٰ سطح پر صحت کی تعلیم دی جائے اور برصغیر کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں یہ نصاب پڑھایا جاتا رہا۔
1911ء میں ایک رپورٹ مرتب کی گئی۔ یہ رپورٹ آج بھی لاہور کے انارکلی مقبرے میں موجود ہے۔ اس میں کہا گیا ہے برصغیر کے ہر ضلع میں شرح خواندگی 80 فیصد سے زیادہ تھی لیکن جب انگریز یہ ملک چھوڑکر گیا تو یہی شرح دس فیصد تھی۔ بنگال 1757ء میں فتح کیا گیا۔ اگلے 34 برسوں میں مسلمانوں کے سبھی اسکول اور کالج کھنڈر بنا دیئے گئے پھر اس ملک کو تباہ کرنے کے لئے لارڈ کارنیوالیس نے1781ء میں پہلا مدرسہ کھولا۔ اس سے پہلے دینی اور دنیاوی مدرسے کی کوئی تقسیم نہ تھی۔ ایک ہی مدرسے میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا، سائنس اور فلسفہ بھی۔ حاصل یہ جب تک مسلم دنیا علوم وفنون میں آگے تھی، تب تک وہ دنیا کی قیادت کررہی تھی، ہر میدان میں کامیابی حاصل کررہی تھی لیکن جب یہ عیش وعشرت اور تعیشات میں مبتلا ہوگئے علوم وفنون کی سرپرستی چھوڑ دی تو آہستہ آہستہ پیچھے ہو گئے۔ آج عالم اسلام کی تعلیمی حالت تو یہ ہے کہ دنیا کی200 بہترین یونیورسٹیز میں عالم اسلام کی کسی ایک بھی یونیورسٹی کا نام شامل نہیں۔ تین سال پہلے ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی شامل تھی۔ اس سال اس کا نام بھی خارج کردیا گیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے اب عالم اسلام اور اس کے حکمرانوں نے تعلیم اور جدید علوم وفنون کی طرف توجہ دینا شروع کردی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی نے بھی قدیم علوم کے ساتھ ساتھ عصر حاضراور دور جدید کی تعلیم سے بہرہ مند کرانے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ اسی طرح ملائیشیا، مصر، پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی کوششیں جاری ہیں۔ جدید علوم وفنون کی طرف پھر سے توجہ دی جانے لگی ہے۔ لاریب! جدید علوم وفنون کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ مسلمان اگر نشاة ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں تو انہیں طاقت وقوت کے ساتھ علم وآگہی کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوانا ہوگا۔
تازہ ترین