• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وبا کا بحران تو عالمی ہے،ہر حکومت اس کے حوالے سے تنقید کے تیر سہہ رہی ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں بھی۔ وزیراعظم عمران کی ’’بھوک اور موت‘‘ کو سامنے رکھ کر ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ کی پالیسی متوازن اور حقیقت پسندانہ ہے تاہم اسمارٹ کو مزید اسمارٹ بنانے کی گنجائش موجود ہے۔

اس لئے وزیراعظم کا یہ بڑا اقدام واقعی گڈ گورننس کے زمرے میں آتا ہے۔ رہا عوامی رویے یا عدم تعاون کا مسئلہ، ترقی پذیر دنیا ہی نہیں ترقی یافتہ دنیامیں بھی یہ محال ہوتا ہے اور مطلوب اجتماعی رویوں کی تشکیل ترقی یافتہ دنیا میں بھی برسوں اور ترقی پذیر میں عشروں میں بھی بمشکل ہوتی ہے۔

اس سے ہٹ کر موجودہ تبدیلی حکومت کی بڑی علت اس کا ’’بیڈ گورننس‘‘ سے آغاز ہے، جس میں کوئی تبدیلی لانا بھی محال ہو رہا ہے لہٰذا ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا یہ کہ فیصلہ سازی صورتحال کی نزاکتوں کے مطابق بالکل نہیں ہو رہی، جیسے ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ خانِ اعظم نے لمبی چوڑی بےنتیجہ قسم کی مشاورتوں کے بغیر خودفیصلہ لیااور کامیاب رہے، پھر بھی تنقید تو جاری رہے گی۔

یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی تبدیلی حکومت کا آغاز، کنگال اور بڑی مقروض حکومت کے طور ہوا لیکن ’’گڈگورننس‘‘ کی شدید اور فوری قومی ضرورت کی نشاندہی کئی سال پہلے ہو چکی تھی۔

’’بدترین جمہوریت‘‘ کے عشرے(2008-18)نے تو یہ بالکل واضح کردیا کہ ہر شعبے میں پاکستان کے انحطاط اور تباہ شدہ اور ہوتے اداروں کی تباہی اور اس سے پیدا ہونے والی مسلسل بحرانی کیفیت کی جڑ بیڈ گورننس ہے۔

المیہ یہ ہوا کہ خود تحریک انصاف جس نے بدترین جمہوریتوں سے پیدا ہونے والی گورننس کی تباہی کو قوم کے سامنے مکمل بےنقاب کیا، اس نے اپنے اقتدار کا آغاز ہی ’’بیڈ گورننس‘‘ کے مضحکہ خیز ماڈل سے کیا۔

جس نے قوم کو حیران وپریشان کیا ہوا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اقتدار سنبھالتے ہی متعلقہ علوم و تجربے سے محروم مشیروں، اسٹیٹس کو کے الیکٹ ایبلز اور سیٹھوں کے گروپ میں گھر گئے، جو ٹیکنو کریٹ نصیب بھی ہوئے وہ بھی آئی ایم ایف اورینٹیڈ اور معاشی بحرانوں کے روایتی حل دینے کے پابند۔ رہی سہی کسر پنجاب کی مطلوب قیادت کے کمزور وژن سے پوری ہو گئی۔

وگرنہ سنگین معاشی بحران کے باوجود بیوروکریسی کا مطلوب تعاون اس کی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کے مطابق حاصل کرنا جو حکومت کے عوام دوست اقدامات کو نتیجہ خیز بنانے میں دیوار کی طرح حائل ہے کے علاوہ تباہ ہو جانے والے عوامی خدمات کے اداروں، خصوصاً نظام تعلیم و صحت میں مطلوب بنیادی اصلاحات کا آغاز ہونا اس بحرانی کیفیت میں بالکل ممکن تھا، ممکن ہے، لیکن اب حکومتی دربار وزیراعظم کو ایسے حصار میں لے چکا ہے کہ اس کا نکلنا محال ہے۔

چلیں یہ تو بدترین جمہوریت کا ملبہ زیادہ اور پھر آپ کی حکمرانی کا مایوس کن آغاز کا نتیجہ تھا، یہ جو آپ نے ملک کے آزاد میڈیا پر ہاتھ ڈالا ہے اور ایک ایسےوقت میں جب ایک جاندار اور حکومت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بہتر تعلقات رکھنے والے میڈیا کی ضرورت اولین اور صورتحال کے مطابق شدت سے مطلوب ہے، آپ نے اور آپ کے زیر انتظام اداروں نے اسے ٹھکانے لگانے کا ڈیزاسٹر نجانے کس جذبے اور کونسی سوچ سے کیا ہے؟

ملک کےٹرینڈ سیٹر سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو نیب نے بغیر کسی مقدمے کے ہی اسیرِ صحافت بنا کر آئین و قانون کی دھجیاں نہیں اُڑائیں؟ پھر جوڈیشل ریمانڈ پر چلے جانے کے بعد ملک کا نظام انصاف جو پہلے ہی عوام کے لئے مایوس کن ہے، مشکوک حد تک اپنا تشخص نہیں بنا رہا؟ پی آئی اے اورا سٹیل ملز بھی آپ کے آنے پر ٹھیک ہوسکتے تھے، بے اسکول بچوں کے زیر تعلیم ہونے کے ابتدائی قدم اٹھائے جا سکتے تھے۔

نظام صحت میں کرپشن پر ہاتھ ڈالا جا سکتا تھا لیکن آپ نے اپنے بل پر ارتقا کی صورت اختیار کئے ملکی میڈیا کو ایک حساس وقت میں ٹھکانے لگانے کی جو ٹھانی ہے اس پر ترجمانوںکی پلٹن میں بیٹھا کوئی ترجمان ہے جو جواب دے (جاری ہے)۔

پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی رحلت پنجاب یونیورسٹی میں میرے برسوں کے رفیق کار، بین الاقوامی امور ابلاغیات پر گہری نظر رکھنے والے، اور اس کا تجزیہ اسلامی دنیا اور پاکستان کے حوالے سے کرنے کے ماہر معروف میڈیا اسکالر پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کورونا وبا کی زد میں آ کر گزشتہ روز اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ڈاکٹر مغیث اور میری دوستی دوران تعلیم ہی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پروان چڑھی، وہ مجھ سے ایک سال سینئر تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب ملکی یونیورسٹیاں پُرآشوب نظریاتی کشمکش کی زد میں آگئی تھیں۔ تعلیم و تحقیق ثانوی اور نظریاتی غلبے کی جدوجہد غالب ہوگئی تھی۔ اس ماحول میں ڈاکٹر مغیث دائیں بازو کے متحرک طلبہ کی صف اول میں بھی نمایاں تھے۔ ہم اپنے نظریاتی دفاع اور برتری کیلئے سرگرم ہی نہیں تھے۔

ہمیں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں خصوصاً آئی ای آر میں داخل کرائے گئے ایف ایس ایف کے انسپکٹروں کی دھمکیوں سے بھی نمٹنا پڑ تا تھا۔ بحیثیت میڈیا اسکالر ڈاکٹر مغیث نے مغربی میڈیا میں اسلامو فوبیا پر مبنی ایجنڈے اور پاکستان کے خلاف گمراہ کن مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کو کانفرنسز، بڑے متعلقہ پلیٹ فارمز اور ہر موقع پر رد کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے نظریہ اسلام اور پاکستان کی موثر ایڈووکیسی کی۔

ڈاکٹرمغیث اور میں، جہاد افغانستان سے متعلق علمی اور صحافتی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ پروفیسر صاحب اپنے وجود کا واضح احساس دلانے والے ایسے متحرک استاد تھے جو پاکستانی یونیورسٹیوں میں نظریاتی علمی کشمکش کے حوالے سے ایک بڑا حوالہ تھے۔ آج کے ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں پیش ورانہ خدمات انجام دے رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور بھابی، بچوں اور لواحقین کو صبرِ جمیل کی نعمت سے نوازے۔ آمین!

تازہ ترین