• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت چین حالیہ تنائو کو سمجھنے کے لئے پچھلی قسط میں ہم نے بھارت چین تنازعات اور مفادات میں ٹکرائو کی تفصیل بیان کی تھی۔ یہ تنازعات آنے والے وقت میں مزید بھڑک کر بڑے الائو یا بڑی جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں، اس کے باوجود ہمارا گمان ہے کہ دونوں بڑی طاقتیں جو نیو کلیئر ہتھیاروں سے لیس ہیں تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ سے گریز کریں گی۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بھاری تجارتی حجم ہے، کوئی بھی اتنی بڑی اور قریبی مارکیٹوں کو کھونا نہیں چاہے گا۔ ایل اے سی پر حالیہ ہلاکتوں کے باوجود چینی میڈیا نے اپنے عوام میں بھارت کے خلاف اشتعال پھیلانے سے گریز کیا ہے بلکہ اپنے جانی نقصان کو سامنے آنے ہی نہیں دیا جبکہ بھارت ایک اوپن جمہوری سوسائٹی ہونے کے ناتے ایسا کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ مودی سرکار نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مونچھ نیچے ہی رکھی ہے البتہ بھارتی میڈیا نے چین کے خلاف اشتعال پھیلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں چینی مصنوعات کو جلانے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کی خبریں تواتر سے سامنے آ رہی ہیں۔ بھارتی اپوزیشن بالخصوص کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی نریندر مودی کے خلاف خاصی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے انہیں ’’سرنڈر مودی‘‘ کے القابات تک دے ڈالے ہیں۔ جواباً بی جے پی والوں نے بھی انہیں ان کے بزرگ پنڈت نہرو کی 1962والی جنگی کارکردگی یاد دلائی ہے۔

’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگانے اور چواین لائی کا استقبال کرنے کے باوجود سنجیدہ سرحدی تنازعات کی وجہ سے 1962کی جنگ ہو گئی جس میں بھارت کو نہ صرف یہ کہ خاصا جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا بلکہ اسے اقصائے چن کے اڑتیس ہزار مربع کلو میٹر علاقے سے بھی محروم ہونا پڑا۔ پنڈت نہرو نے آزادی کے بعد بھارت کو دفاعی کے بجائے معاشی طاقت بنانے کی ٹھانی تھی لیکن جنگی نتائج سے انہیں جو صدمہ پہنچا شاید اسی سے پنڈت بھی چل بسے تھے۔ آج اٹھاون برس بعد اگرچہ بھارت نے اسلحہ بندی کے لحاظ سے خاصی ترقی کر لی ہے لیکن چین کے بالمقابل جی ڈی پی یا معاشی ترقی کی طرح دفاعی حوالے سے بھی بھارت ہنوز خاصا پیچھے ہے۔ یہ فرق شاید اسی طرح ہے جس طرح امریکا اور چین میں ہے۔ وزیراعظم مودی دفاعی حوالے سے جو بھی پیش بندی کر رہے ہوں انہیں چینیوں کے اس نعرے کو مذاق نہیں سمجھنا چاہئے کہ ’’ہمالیہ کو ہلایا جا سکتا ہے پیپلز لبریشن آرمی کو نہیں‘‘۔ بلاشبہ وہ اس وقت اندرون ملک شہرت کی بلندیوں پر ہیں اور بیرونی یعنی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے بھی صورتحال ان کے لئے اچھی خاصی موافقت میں سازگار ہے۔ امریکا یورپ کے علاوہ آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے بڑے امریکی اتحادیوں کی واضح حمایت انہیں حاصل ہے شاید روس کو بھی وہ غیرجانبدار رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن ان کی پشت پناہی کے اصل مرکز امریکی صدر ٹرمپ ان دنوں اقتدار کے جس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں، انہیں اپنی حکمرانی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ایسے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ وہ کچھ نہیں کر سکے گی جس کی اتنی بڑی چھیڑ خانی کے بعد مودی سرکار کو ضرورت ہوگی۔ کسی بھی مقصد میں آگے بڑھنے کے لئے لازم ہوتا ہے کہ پہلے اس کی مطابقت میں زمین ہموار کی جائے بصورت دیگر ناکامی و ذلت آپ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ مغرب نے سوویت یونین کا خاتمہ کرنے کے لئے برسوں قبل سرد جنگ کے دوران پیش بندی کے طور پر جو اقدامات کئے تھے وہ قابلِ فہم ہیں اگر امریکا جبر کا راستہ روکنا چاہتا تھا تو اس کے لئے بھارت کو سامنے کھڑے کرنا ہی کافی نہیں تھا، تائیوان یا ہانگ کانگ کے ایشوز سے بھی زیادہ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کے سوالات سنجیدگی سے اٹھائے جانے چاہئے تھے۔ اپنی ہمسائیگی میں مختلف خطوں کو جس طرح اپنے اندر ضم کیا جا رہا تھا اس کو سلوگن بنانا بنتا تھا بالخصوص سنکیانگ اور تبت کے ایشوز خالصتاً انسانی و مذہبی بنیادیں رکھتے تھے۔

سوویت یونین انہدام کے بعد جو فورسز بقول صدر ریگن اس ’’شیطانی نظریہ‘‘ کے خلاف برسرپیکار تھیں آپ کی طرف سے اُن کی درست رہنمائی کیوں نہ کی جا سکی؟ آپ کی جن بلیوں نے آپ ہی کو میائوں میائوں کرتے ہوئے چڑھائی کر دی آپ ان کی درست رہنمائی سے کیوں قاصر رہ گئے؟ آج آپ کو سی پیک جیسے منصوبے کھٹکتے ہیں کیا اس نوع کی سرمایہ کاری یا اپنے اتحادیوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے آپ کے پاس وسائل نہیں تھے؟ بدلے ہوئے حالات میں کیا آپ پاک، ہند تنازعات دور کرواتے ہوئے انہیں باہم قریب نہیں لا سکتے تھے؟ کیا آپ سارک جیسے زبردست پلیٹ فارم کو فعال نہیں بنوا سکتے تھے؟ جو جتنے بڑے مقام پر ہوتا ہے اُس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بھاری ہوتی ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں دو ہی راستے ہیں اگر آپ کسی کو سوویت جیسی برائی سمجھتے ہیں تو اسی پلاننگ کے جذبے کے ساتھ عالمی حالات کا رُخ موڑیے جبر اور گھٹن کے انسانی دکھ اگر ویسے نہیں ہیں تو کوئی بہت زیادہ مختلف بھی نہیں ہیں، ڈال سکتے ہیں تو مضبوط ہاتھ ڈالیے بصورت دیگر رسوائی جگ ہنسائی اور ناکامی و بربادی سے بہتر ہے کہ چین کے ساتھ بھی کچھ شرائط کے تحت کمپرومائز کے لئے سیکورٹی کونسل کے تحت علاقائی تنازعات کو حل کروانے کی کاوش کریں۔ ہماری موجودہ ترقی یافتہ خوبصورت دنیا ایٹمی جنگ کی ہولناکیوں کا رسک لینے سے قاصر ہے۔ کمزور اقوام کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ انصافی پلڑے کا جھکائو کسی نہ کسی حد تک طاقت کی جانب رہتا ہے تہذیبی ترقی اس کی ریشو کو کم سے کمتر کرنے کی محض کاوشیں کر سکتی ہے۔ بھارت، چین اور پاکستان کو اسی خطے میں رہنا ہے اور تنازعات کے باوجود جل مرنا نہیں جینا ہے لہٰذا بھلائی اسی میں ہے کہ منافرت اور اشتعال انگیزی کی بجائے دلائل و منطق کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات کی راہ پر چلتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی جائے۔

تازہ ترین