• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’زہریلی‘‘ پنشن میں اضافہ نہیں لائی

ہم اُس شیر دل زہریلی کی بات نہیں کر رہے جو بارات لے کے آپ آئی بلکہ اس زہریلی کی دہائی دے رہے ہیں جو پنشن میں اضافے کی جگہ پٹرول میں ریکارڈ اضافہ لائی ہے، اس ملک میں پنشنرز کشی کی داستان پرانی ہے مگر یہ نئی تبدیلی سرکار کی کرم فرمائی ہے کہ بجٹ سے پنشنز میں اضافہ بھی چاٹ گئی ہے، اس سے پاکستانی معیشت میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہو گا، پھر پنشنرز کو قبروں سے نکال کر خوشخبری سنائی جائے گی۔ دنیا بھر میں پنشنرز سے اس کی ضرورت پوچھی جاتی ہے، یہاں ضرورت چھینی جاتی ہے، حکومت نے اپنا نام تحریک انصاف رکھ کر پنشن میں اضافہ نہ کر کے ایسی نیک نامی کمائی ہے جو اگلے انتخابات تک مار کرے گی، میڈیا کیوں پنشن پر گزارہ کرنے والوں کے انٹرویوز نشر کرنے کا جامع پروگرام نہیں بناتا اب تو یہ ڈر بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر سرے سے پنشن ہی ختم کر دی جائے، اور یوں پنشن پر زندہ رہنے والوں کی خاندانی منصوبہ بندی ہو جائے، حکومت رانی کیا کر رہی ہے۔ اس کا جواب سپریم کورٹ نے دیا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتی، مافیاز کے خلاف کوئی جڑ اکھاڑ کارروائی نہیں کی جاتی، سندھ حکومت کو سلام کہ پنشن میں اضافہ کر کے بتا دیا کہ بزرگ طبقے سے انہیں کتنی ہمدردی ہے، حکومت کے پاس رٹ کے سوا سب کچھ ہے، اسمبلی میں ختم غربت کی قرار داد بھی لائی اور منظور کرائی جائے، کورونا وائرس کے باعث بزرگ پنشنرز سڑکوں پر بھی نہیں آ سکتے، ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس ظالمانہ فعل کے خلاف اور اپنا حق لینے کے لئے سوشل اور ریگولر میڈیا پر مربوط مہم چلائی جائے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے وفاقی بجٹ کے عدم اضافے کو مسترد کر دیا تھا مگر فی الفور ہفتہ وار لاہور یاترا میں انہیں چپ کرا دیا گیا، بزدار صاحب کی وزارت اعلیٰ کے گوںنا گوں فوائد کئی ہیں، وہ خود مختار وزیر اعلیٰ ہیں اب بھی چاہیں تو اپنے صوبے کے پنشنرز کی پنشنز میں اضافے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

٭٭٭٭

صفائی نصف ایمان اور دو لاہور

لاہوری اب باقی ماندہ نصف ایمان کی خیر منائیں اور چیک کریں کہ کہیں پورا ایمان تو رخصت نہیں ہو گیا۔ اس شہر نگاراں میں اب حالت یہ ہے کہ نگار قرنطینہ میں ہیں، اور غلاظتوں کے انبار اندر باہر ہیں، پورے شہر میں صفائی مافیا کا راج ہے۔ وہ پیسے پورے لیتا ہے لیکن کوڑا اٹھانے کبھی کبھی آتا ہے، یہ کوڑا کرکٹ جگہ جگہ بنائی گئی بھٹیوں میں رات کے وقت جلایا جاتا ہے۔ آلودگی کا یہ طوفان ناک کے آخری سرے کو بھی جلاتا ہے مگر کوئی بولتا نہیں، صفائی کے ذمہ دار حکومتی اداروں کے اہلکار کہیں نظر نہیں آتے مگر تنخواہ باقاعدہ وصول کرتے ہیں، لاہور کے دو حصے ہیں ایک اصل لاہور دوسرا پوش لاہور، دوسرے میں صفائی بھی ہوتی ہے، سگنلز بھی پورے آتے ہیں، اور اس میں لائوڈ اسپیکر سے آراستہ کھوتا ریڑیاں یا پھیری والے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔ بجلی کے کھمبوں، تاروں اور ترسیل کا نظام معیار کے مطابق ہے مگر اصل لاہور ان تمام فضیلتوں سے محروم ہے، کیا اس شہر میں علی الصباح صفائی، چھڑکائو اور کوڑا اٹھانے کا سرکاری نظام نہیں ہوا کرتا تھا اب وہ پرانا اور اصلی لاہور کہاں ہے؟ پورا شہر صدا دیتا ہے ذمہ دارانِ لاہور بلائو ذمہ داران لاہور کہاں ہیں، لائوڈ اسپیکرز ایکٹ کہاں ہے؟ کیا والیوم کم نہیں کیا جا سکتا کہ کان پڑی آواز تو سنائی دے۔اگر دنیا صفائی کو نصف ایمان تسلیم کر لیتی تو آج کورونا نہ ہوتا، عذاب تب آتا ہے جب ہم اس دنیا کو غلط استعمال کرتے ہیں، اور دھرتی ہی سے عذاب، وبا، بَلا اٹھتی ہے، اور وائرل ہو جاتی ہے، بہرحال قصہ پھر ایک اور دوسرے لاہور کا کہ پورے شہر کو یکساں سہولیات اور اچھا بندوبست فراہم کیا جائے یہ ذمہ داری جناب عثمان بزدار کی ہے وہ اپنے صوبے میں رٹ کو ڈھونڈ کر سختی سے نافذ فرما دیں یہ تو وہ کر سکتے ہیں۔

٭٭٭٭

مافیا شافیا

سپریم کورٹ کا فرمان! دوا ساز ادارے بھی مافیا، خریداری کے نام پر منافع باہر بھیج دیتے ہیں۔ حکومت کچھ نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں نظام صحت ہی اختتامِ صحت ہے، دو نمبر دوا سازی اپنی جگہ رگوں میں دوڑتی پھرتی ہے تو حکومتی آنیاں جانیاں اپنا بھرپور خالی خولی کردار بخوبی انجام دیتی ہے، بہرحال یہاں انجام ہی انجام ہے آغاز کا کہیں وجود دکھائی نہیں دیتا، سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ دوا ساز مافیا اپنا دھندا زور شور سے چلا رہی ہے مگر حکومت کچھ نہیں کرتی، یہ بات ہم کرتے تو مشکوک ٹھہر سکتی تھی لیکن عدالت عظمیٰ کا فرمایا ہوا تو غیر مستند نہیں ہو سکتا۔ جب کوئی کاروبار حیات، حیات بخش نہ ہو تو وہ مافیا شافیا ہو جاتا ہے؎

ہم تو سمجھے تھے آئے گی تبدیلی سرکار تو برسے گا انصاف

آئی تبدیلی سرکار تو تبدیلی سرکار نے دل توڑ دیا

ادویات کے نرخ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں، ملک سے کرپشن دور کرنے کے دعویدار کرپشن کے پرستار نکلے، مائنس ون کو مان لیا جائے تو کیا حاصل، باقی آوے کا آوا تو سبحان اللہ۔ نجانے کیوں کپتان نے اپنے گرد تاریک کہکشاں تان رکھی ہے؎

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

خدا کے لئے خانِ اعظم اس مافیا شافیا کا کوئی کافی شافی علاج کریں ورنہ پھر موقع گنوانے کی سوا پارٹی کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔

٭٭٭٭

دستِ شمشیر زن دست بہ زنجیر کیوں؟

....Oعمران خان:دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کر رہے تھے،فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ شروع کر دیا۔

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

اسے کہتے ہیں غیر منطقی بیان، اللہ کرے زور بیان اور زیادہ۔

....Oحضرت محمد ﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لازمی لکھنے بولنے کی قرارداد منظور۔

تاریخ اسلام میں اس سے بہتر قرارداد کبھی منظور نہیں ہوئی ماشاء اللہ۔

....O نیب نے میر شکیل الرحمٰن کو بغیر مقدمہ گرفتار کیا، اب بے بنیاد ریفرنس دائر کر دیا۔

حیرانی ہے کہ پاکستانی میڈیا یہ سب کچھ کیسے ہضم کر رہا ہے، اگر آج یہ خاموشی نہ ٹوٹی اور ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس کے مالک کو رہا نہ کرایا گیا تو مستقبل میں میڈیا اپنی حفاظت نہیں کر سکے گا، ہم حتماً یہ بتا دیں کہ میر صاحب کی رہائی حکومت کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو گی، جنگ جیو گروپ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں، میڈیا کو اعتماد میں لیں۔ کرپشن کے خلاف میڈیا ہائوس کا دست شمشیر زن ثابت ہو گا۔

تازہ ترین