• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے بارے میں جب ہم نے کالم لکھنا شروع کئے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ لاہور کی محبت کا اسیر تو ایک زمانہ ہے۔ خصوصاً گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول اور گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کے اولڈ اسٹوڈنٹس کی ایک کثیر تعداد نے جس خلوص، محبت کے ساتھ پرانی یادوں کا ذکر کیا ہے، پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ لاہور شہر نے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ بقول شاعر

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

لاہور میں بے شمار سڑکیں آج بھی گوروں کے نام پر ہیں، اگرچہ ہم نے کچھ سڑکوں کے نام تبدیل تو کر دیے ہیں مگر لوگ آج بھی ایمپریس روڈ، ڈیوس روڈ، بیڈن روڈ، ریٹی گن روڈ، ٹیپ روڈ، مال روڈ، لوئر مال، اپر مال، ایجرٹن روڈ، میکلیگن روڈ، ہال روڈ، چیئرنگ کراس، ریگل چوک، کینٹ برج یا میاں میر پل، میاں میر چھائونی جسے اب لاہور چھائونی بھی کہتے ہیں، کو پرانے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں، چرچ روڈ، ایبٹ روڈ، کوئینز روڈ، ڈیورنڈ روڈ ان تمام سڑکوں پر کسی زمانے میں بڑی بڑی خوبصورت کوٹھیاں ہوا کرتی تھیں جو زیادہ تر پیلی اور سفید ہوتی تھیں، ہم نے تقریباً تمام کوٹھیاں دیکھی ہیں اور کچھ کے اندر بھی گئے ہیں اور وہاں کے مکینوں سے بھی ملے ہیں۔ اپرمال پر آج بھی چند ایک پرانی کوٹھیاں ہیں۔ سروسز اسپتال و لمز کے سربراہ اور معروف سرجن پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کی خاندانی کوٹھی بھی یہاں اپنی اصل صورت میں قائم ہے بلکہ انہوں نے کوٹھی کے اندر تمام فرنیچر اور سامان کو بھی اسی طرح رکھا ہوا ہے۔ ریٹی گن روڈ پر ہماری خاندانی کوٹھی تھی جس کا مین دروازہ ٹیپ روڈ پر اور پچھلا دروازہ ریٹی گن روڈ پر تھا۔ اس علاقے میں زیادہ تر کوٹھیاں تین اور آٹھ کنال کی تھیں۔ آج اس سڑک پر ایک بھی کوٹھی نہیں رہی۔

سینٹرل ماڈل اسکول کے پچھلی طرف سینٹرل ٹریننگ کالج (اب ایجوکیشن یونیورسٹی) تھی اور اس کے گرائونڈ کے سامنے سڑک کے پار تین قدیم کوٹھیاں تھیں جو ہم نے 1980ء کی دہائی تک دیکھی ہیں، کچھ اور بھی انگریزوں کی کوٹھیاں تھیں۔ وہ ہماری ہوش سے پہلے کی باتیں ہیں۔ اگر لاہور میں کوئی سو برس یا اس سے زیادہ عمر کا شخص زندہ ہوا تو شاید کچھ بتا سکے۔ حکومت پنجاب کے ایک سیکریٹری ریٹی گن تھے، ان کی کوٹھی اس سڑک پر تھی۔ ریٹی گن غالباً انگریز دور میں لاہور ڈی سی بھی رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ریٹی گن خاندان کی یہاں پر کچھ اور بھی کوٹھیاں تھیں۔ البتہ ہم جن تین کوٹھیوں کا ذکر کر رہے ہیں ان میں ایک کوٹھی میں سینٹرل ماڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر، دوسری پرنسپل سینٹرل ٹریننگ کالج اور تیسری سینٹرل ٹریننگ کالج کے وائس پرنسپل کی تھی۔ یہ تینوں کوٹھیاں بہت وسیع رقبے پر تھیں اور آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ سینٹرل ماڈل اسکول کے ایک ہیڈ ماسٹر نے ان کوٹھیوں کو گرانے کا منصوبہ حکومت کو دیا اور یہاں سینٹرل ماڈل اسکول دوم کی بدصورت عمارت قائم کر دی۔ انگریز تعلیمی اداروں کے ساتھ یا اندر ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل کی رہائش گاہیں بھی بنایا کرتے تھے مثلاً گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی پرنسپل کی رہائشگاہ 1985ء تک رہی، بڑی خوبصورت کوٹھی تھی۔ ہم پروفیسر رشید مرحوم پرنسپل سے کئی مرتبہ اس کوٹھی میں ملے تھے، اسی طرح ایف سی کالج کے پرنسپل اور اساتذہ کی کوٹھیاں آج بھی ایف سی کالج کے اندر ہیں۔ ہر کوٹھی میں لکڑی کا بڑا خوبصورت کام ہوا ہوتا تھا۔ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے انگریزوں سے نفرت کے اظہار کے طور پر ہر اچھی روایت کو بھی پامال کر دیا مثلاً ریٹی گن روڈ اور شہر کی بے شمار سڑکوں پر صبح و شام پانی کا چھڑکائو ہوتا تھا، اب نہیں ہوتا، ریٹی گن روڈ پر ہی تاریخی بریڈ لا ہال ہے۔ اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ اس ہال میں ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ یہ آج کل متروکہ اوقاف بورڈ کے پاس ہے لیکن اس قیمتی جگہ پر کئی مافیا قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں۔ اس وجہ سے اس ہال کو جان بوجھ کر خستہ حال کیا جا رہا ہے۔ یہاں کبھی نیشنل کالج بھی ہوا کرتا تھا۔ اس ہال میں کبھی قائداعظمؒ نے بھی خطاب کیا تھا۔ بھگت سنگھ بھی اس ہال کے کالج میں زیر تعلیم رہا، امرتسر کی کئی گانے والیوں کے یہاں شوز بھی ہوتے رہے، یہ ہال ہمارے گھر کی پچھلی طرف تھا، یہاں کسی ظالم نے کبھی کاروں کی ورکشاپ بھی قائم کر دی تھی۔ لاہور میں تاریخی عمارتوں اور باغات کا ایک خزانہ تھا جس کو ہر ایک نے لوٹا اور تباہ کیا۔ آج سے پچاس؍ سو برس بعد لاہور میں شاید ہی کوئی تاریخی عمارت محفوظ رہ جائے۔ قبضہ مافیا نے اس لاہور کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ یہ کیا شہر تھا، ہر اتوار کو لوگ اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ راوی دریا پر پکنک منانے آتے تھے، دریا پر گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج، اسلامیہ کالج، پنجاب یونیورسٹی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی اپنی کشتیاں کھڑی ہوتی تھیں۔ اسٹوڈنٹس کے درمیان کشتی رانی کے مقابلے ہوتے تھے۔ لڑکیوں کے علیحدہ مقابلے ہوتے تھے۔ بہترین کشتی چلانے والی اور مقابلہ جیتنے والی کو کوئین آف راوی کا خطاب دیا جاتا تھا۔ ہم ہر سال یہ مقابلے دیکھنے جاتے تھے، کیا منظر ہوتا تھا۔ سینکڑوں افراد راوی کے کنارے کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھتے اور داد دیتے۔ فلم ہیر رانجھا کی ہیروئین فردوس کو ہم نے کئی مرتبہ راوی پر برقع پہن کر کشتی چلاتے دیکھا تھا۔ اب وہ راوی بھی کہیں کھو گیا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین