• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو سچی کہانیاں پیش خدمت ہیں۔ 1۔ریاست مدینہ کے والیو! فلاں بنت فلاں مڈل ٹیچر پرائیوٹ اسکول کی آخری چیخ سن لو، اسکولوں کی بندش نے دو وقت کی روٹی سے محروم کر دیا ہے، اب گوہرِ عفت بھی دائو پر لگ گیا ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ پیٹ کی بھوک کبھی مٹ سکی ہے کیا؟ کسی نے نہیں پوچھا کہ چار ماہ سے تمہیں تنخواہ ملی؟ گھر کیسے چل رہا ہے؟ جس کے آگے بھی دستِ سوال دراز کیا اس نے بدلے میں عصمت کا سودا کرنے کا اشارہ دے ڈالا۔ یقین ہو چلا ہے کہ گوہر ناموس لٹنے کو ہے، کیا پتا کس کمزور لمحے سب ہار دوں؟ ریاست مدینہ کے تخلیق کارو اور دن رات مدینہ کا نام جپنے والو سن لو! اگر میں تار تار ہوئی تو روز قیامت تمہارا گریبان پکڑ کر وہ چیخ و پکار کروں گی کہ عرش کانپ اٹھے گا اور تمہیں چھپنے کو جگہ نہ ملے گی۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ملک بھر کے نجی اسکولوں کے اساتذہ کے بارے میں محض سوچو نہیں، بلکہ کر بھی ڈالو۔

2۔میں فلاں بن فلاں پاکستان کا وہی دہاڑی دار ہوں جس کا نام لیکر پورے ملک کو کورونا کے حوالے کر دیا گیا۔ کورونا متاثرین کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ ایک طرف ایک سال سے ٹڈی دَل کسانوں کی محنت شاقہ کو چٹ کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت کی ناقص پالیسیاں ملک کی معیشت کو کھا رہی ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ کورونا کی آڑ میں کس کس کے مذموم مقاصد کو پوراکیاجارہاہے؟ ملک کے حکمراں کس خوش فہمی میں ہیں کہ عوام میں ان کی مقبولیت ماضی جیسی ہی ہے، آج ایک جلسہ کرکے دیکھ لیں، سب معلوم ہو جائے گا، ہمارے دلوں کا حال ہمارے چہروں پر طاری مایوسی سے چھلکتا نظر نہیں آتا، کیوں؟ حکمرانو! تم نے ہمیں خوشحالی بھرے نیلے آسمان کی خوشخبری سنائی تھی لیکن نیلا آسمان تو دور، افق ہی لاکر ہمارے سروں پر دے مارا، کیوں؟ مٹی کوسونا بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن سونا اگلتی زمین کو ٹڈی دَل کے حوالے کرکے کھیت اجاڑ دیے، کیوں؟ وعدے سونے کے مینارے بنانے کے کئے لیکن وہ سب پیتل کے بھی نہ نکلے، کیوں؟ کرپشن اور چور چور کا شور مچا کر حمزہ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ برادران سمیت تمام اپوزیشن کو پابند سلاسل تو کر دیا لیکن احتساب نہ کر پائے، کیوں؟ رانا ثناء اللہ پر منشیات کی بھاری بھرکم کھیپ ڈال کر ’اللہ کو جان دینی ہے‘ جیسے جھوٹے کردار آگے کیے، کیوں؟ پٹرول کی قیمت کم ہوئی، مہنگائی کو بھی اسی شرح سے کم ہونا چاہئے تھا، لیکن اس بھاری پتھر میں رتی بھر جنبش نہ ہوئی، ریکارڈ پیداوار کے باوجود چینی کی قیمت دگنا کر دی گئی، سبزیاں، پھل، دالیں اور آٹا مہنگا ترین کرکے ہمیں فاقوں پر مجبور کر دیا، کیوں؟ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ سندھ نے تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا اور وہاں پی ٹی آئی نے احتجاج کیا کہ اضافہ کم ہے جبکہ خود پی ٹی آئی نے وفاق، پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں ایک پیسہ نہیں بڑھایا، کیا ہمارا یہی قصور تھا کہ ہم نے تبدیلی کا گانا دل سے گایا اور تبدیلی کی امید رکھی؟ کیا حکمراں نہیں دیکھ سکتے ہمارے دکھ کرب اور تکلیف آنکھوں سے آنسوئوں کی شکل میں رواں ہے۔ کہاں ہے وہ قوس قزح بھرا نیا افق جس کے خواب ہمیں دکھائے تھے؟ آپ اور آپ کے وزیر تمام تر مسائل کا ذمہ دار عوام اور مافیا کو ٹھہراتے رہے حالانکہ سارے ادارے آپ کے پیچھے کھڑے تھے لیکن آپ پھر بھی کچھ نہ کرسکے۔ سرکاری اسپتال اذیت گاہیں بن گئے اور نجی اسپتالوں نے عوام کو دن دہاڑے لوٹ لیا۔ کورونا کی چادر لئے حکمرانو ہرروز ٹی وی پر آکر خطاب کرکے عوام کو مزید پریشان کر کے چلے جاتے ہو۔ تم غریب عوام کے آنسوؤں کو کیوں نہیں محسوس کرتے جو وہ گزشتہ دو سالوں سے بہانے پر مجبور ہیں، یہ سمجھ کیوںنہیں آتی کہ عوام ہار گئے توحکمراںکیونکر خود کو کامیاب کہہ سکیںگے؟ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے بعد حکومت کو نیند کیسے آ جاتی ہے؟ بقول شاعر

گھبرا کے بدل لیتے ہو ہر موڑ پہ رستہ کیا

جس طاق تمنّا سے اٹھا لائے تھے ہمیں

واپس اسی طاق میں دھر کیوں نہیں جاتے تم

بڑھا دیتے ہو ہر روز سانس لینے کی قیمت

اور پوچھتے ہو کہ مر کیوں نہیں جاتے تم

اب تو فواد چوہدری نے بھی عدم تبدیلی کی وجوہات کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی ہے۔ اب پی ٹی آئی حکومت کو مان لینا چاہئے کہ جو ٹھان کے اقتدار میں آئے تھے، نہیں کر سکتے۔ بے بسی اور نااہلی کا اعتراف کرو ورنہ شدید ترین مالی، نفسیاتی اور سماجی بحرانوں کے بھنور میں پھنسے عوام تمہیں راندہ درگاہ بنانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، انھیں صرف نعرہ مستانہ کا انتظار ہے۔

تازہ ترین