• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس نے ساری دنیا کی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا ہے، تیل پیدا کرنے والے امیر ممالک قرضے اور مدد مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں، سفری پابندیوں کے باعث ٹورازم نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹلز اور شاپنگ مالز ویران پڑے ہیں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق 60ممالک میں ایک لاکھ سے زائد اوورسیز پاکستانی بیروزگار ہونے کی وجہ سے وطن واپسی پر مجبور ہیں۔ ان میں 90فیصد خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات میں 69695، سعودی عرب میں 15594اور قطر میں 5800پھنسے ہوئے ہیں جن میں سے تقریباً 56ہزار سے زائد پاکستانی وطن واپس لائے جاچکے ہیں جبکہ مزید 50ہزار سے زائد پاکستانی قومی ایئر لائن کے ذریعے وطن واپسی کا انتظار کررہے ہیں۔ پی آئی اے نے آئندہ ہفتے دبئی سے18 سے 20خصوصی فلائٹس چلانے کا اعلان کیا ہے مگر اپنے دبئی کراچی ٹکٹ میں اضافہ کرکے 1270درہم (57600روپے) کردیا ہے۔ پی آئی اے کے علاوہ ایمریٹس اور قطر ایئر لائنز بھی اپنی خصوصی پروازیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن مسافروں میں کورونا کی تشخیص پر وہ اپنے اعلان پر نظرثانی کررہی ہیں۔

حکومت کے مطابق اب تک 13000اوورسیز پاکستانیوں کی متحدہ عرب امارات، 3000کی سعودی عرب اور 1200کی قطر میں کورونا وائرس کے باعث کاروبار اور فیکٹریاں بند ہو جانے کی وجہ سے ملازمتیں ختم ہوئی ہیں۔حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ اِن پاکستانی ورکرز کو چھٹی کی تنخواہ دلوائی جائے اور حالات بہتر ہونے پر دوبارہ ملازمتوں پر بحال کرایا جائے۔ وطن واپس آنے والوں میں تقریباً 2ہزار سے زائد پاکستانی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو سوڈان، کینیا، تنزانیا اور صومالیہ وغیرہ میں تبلیغ کی غرض سے گئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان واپس آنے والوں میں بیرونِ ملک جیلوں سے رہائی پانے والے 428پاکستانی قیدی بھی شامل ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے وزارت خارجہ میں کرائسز مینجمنٹ سیل قائم کیا ہے جبکہ دبئی قونصلیٹ میں پاکستان کے قونصل جنرل احمد امجدعلی اور ویزا قونصلر شیخ عبدالوہاب اِن اوورسیز پاکستانیوں کی اپنے محدود وسائل میں مدد کررہے ہیں۔

معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میری یہ ذمہ دار ی ہے کہ ان حقائق کے معاشی پہلوئوں پر بھی گفتگو کروں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق کورونا وائر س سے ملک میں 10ہزار صنعتی یونٹس بند ہونے سے ایک کروڑ 80لاکھ افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں جس سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 8سے 10فیصد سالانہ ہو جائے گی اور نتیجتاً ملک کی آدھے سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی جائے گی جو ملک میں غربت اور امن و امان کی خراب صورتحال کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اتنی بڑی تعداد میں بیروزگار اوورسیز پاکستانیوں کی وطن واپسی سے مستقبل میں بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں بھی کمی آئے گی جو اِن محنت کش اوورسیز پاکستانیوں کی ہر سال اضافے سے 23ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں جس میں تقریباً 50فیصد خلیجی ممالک سے آتی ہیں جو ہماری ایکسپورٹس سے زیادہ ہیں اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کا اہم ذریعہ ہیں۔

دنیا میں غیر ضروری اشیاء کی طلب کم ہونے سے ہمارے ایکسپورٹ آرڈرز فی الحال معطل یا منسوخ کردیے گئے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر فیکٹریاں 25سے 30فیصد پروڈکشن پر نقصان میں چل رہی ہیں اور اگر حالات صحیح نہیں ہوئے تو اِن فیکٹریوں کو بند کرنا پڑے گا جو ملک میں مزید بیروزگاری کا سبب بنے گا۔ میری وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے درخواست ہے کہ وہ خلیجی ممالک سے اپنے اچھے ذاتی تعلقات کی بنا پر ان ممالک کے سربراہان سے درخواست کریں کہ وہ حالات بہتر ہوئے ہی اوورسیز پاکستانی ورکرز کو ترجیحی بنیادوں پر اپنے ملک میں دوبارہ ملازمتوں پر بحال کریں۔ حکومت کیلئے ملک میں کورونا وائرس سے بیروزگار ہونے والے افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ وطن واپس لوٹنے والے بیروزگار اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بھی روزگار کے مواقع فراہم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ موجودہ حالات میں صنعتوں کے بحال ہونے میں کافی وقت درکار ہے۔ میں دوبارہ حکومت کی توجہ اُن سیکٹرز کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو مقامی Indigenousہیں اور اِن میں بے انتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے جن میں ایگریکلچر، لائیو اسٹاک، ڈیریز، فشریز، حلال گوشت اور سی فوڈز، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈومیسٹک کامرس شامل ہیں۔ حکومت کو ان سیکٹرز میں پروسیسنگ اینڈ پیکیجنگ انڈسٹریز کے فروغ کیلئے پرکشش مراعات دینا ہوں گی تاکہ اِن سیکٹرز کو فروغ دے کر ہم گیہوں، چاول، چینی، فروٹ، سبزیاں، دودھ، حلال گوشت اور سی فوڈز میں نہ صرف خود کفیل ہوسکیں بلکہ دیگر بالخصوص خلیجی ممالک کو فوڈ سیکورٹی بھی فراہم کرسکیں۔

میرا 17برسوں سے اوورسیز پاکستانیوں سے اپنے کالمز کے ذریعے گہرا تعلق رہا ہے۔ اس موقع پر ہم اپنے اُن تمام اوورسیز پاکستانیوں جنہوں نے قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے، ڈیم فنڈز سمیت ہر مشکل گھڑی میں ملک کی مدد کی اور ہر سال اپنی محنت کی کمائی سے سالانہ 23 ارب ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیج رہے ہیں، کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ مشکل کی اِس گھڑی میں بے یار و مددگار نہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اب وہ ان کی وطن عزیز کیلئے قربانیوں اور برسوں کا قرض چکائے۔

تازہ ترین