• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں چالیس وفاقی وزارتوں اور محکموں کے سرکاری فنڈز میں 270ارب روپے کی خطیر رقم کی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کا سامنے آنا، کرپشن کے خاتمے ہی کو اپنا بنیادی مینڈیٹ قرار دینے والی حکومت کے لیے یقینی طور پر ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق 270ارب روپے کی مجموعی رقم میں سے 12ارب روپے کی کھلی بدعنوانی پکڑی گئی جبکہ 258ارب روپے کے خرچ میں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں پائی گئی ہیں۔ رپورٹ کی رُو سے وفاقی محکموں میں 79ارب 59کروڑ روپے کی ریکوری کے کیس، 8ارب 89کروڑ روپے مالیت کے کمزور داخلی کنٹرول کے معاملات اور 152ارب 20کروڑ روپے کے کمزور مالیاتی نظم و نسق کے امور سامنے آئے ہیں جبکہ آڈیٹر جنرل کے مطابق سرکاری اداروں نے 17ارب 96کروڑ روپے کی کثیر رقم کا ریکارڈ ان کے حوالے نہیں کیا۔ اس صورتحال کی بنا پر انہوں نے بالکل درست طور پر مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر سرکاری اداروں کو اخراجات کرنے سے روکا جائے اور کسی بھی ادارے کو سپلیمنٹری گرانٹس جاری نہ کی جائیں۔ رپورٹ میں سرکاری رقوم میں خورد برد اور مالی بے قاعدگیوں کے ذمہ دار حکام کے خلاف تحقیقاتی اداروں کو ریفرنس بھیجے جانے سمیت سخت اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کرکے منتخب عوامی نمائندوں کو اس پر کسی روک ٹوک کے بغیر اظہارِ خیال کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ فی الحقیقت سرکاری اداروں میں کرپشن کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے مالی معاملات پر پارلیمنٹ کی نگرانی ہی سب سے مؤثر طریقہ ہے جو دنیا کے تمام جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ آڈیٹر جنرل نے بھی اس کی سفارش کی ہے لہٰذا کسی لیت و لعل کے بغیر اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔

تازہ ترین