اسلام کی تقدیر بھی عجیب ہے، ابتدائی زمانے سے لے کر اب تک منافقین کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ لوگوں پر بھی حیرت ہے لوگ کلمہ پڑھ کر بھی منافقت پر قائم رہتے ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں منافقین کو دیکھ کر قرآن پاک میں سورہ منافقوں نازل ہوئی، تب حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ ’’منافق کو کیسے پہچانا جائے؟‘‘ اللہ کے محبوب ترین رسولؐ نے فرمایا ’’جب کوئی شخص تمہارے سامنے آئے تو ذکر علیؓ کرو اگر وہ پریشان ہو جائے تو منافق، اگر خوش ہو تو مومن‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے جو نشانی حضرت عمرؓ بن خطاب کو بتائی، قیامت تک منافق کی یہی نشانی ہے۔ بمطابق حدیث تاریخ کو دیکھا جائے تو اسلام کے پہلے سو سالوں میں بھی منافق ملتے ہیں، اگلے دو سو سال میں بھی پھر اگلے آٹھ سو سالوں میں بھی غرضیکہ آج تک موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ غداروں سے بھی بھری پڑی ہے۔ عہد جدید میں مغرب کو مسلط کروانے والے غدار مسلمان ہی تو تھے، کیا شریف مکہ تو کیا برصغیر کے جاگیردار، جاگیرداروں کے علاوہ بڑے بڑے گدی نشین، سب انگریزوں کی غلامی میں مسلمان حکومتوں کے خاتمے کا باعث بنے۔
کچھ لوگ پاکستان کو سکھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ کبھی را سے پیسے لے کر بلوچستان کا امن تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کراچی کا سکون غارت کرنا چاہتے ہیں، کراچی کی ایک تنظیم کے لوگوں نے تو خود اقرار کر لیا ہے کہ وہ را سے فنڈنگ لیتے رہے ہیں۔ اسی طرح کے الیکٹرک کی کہانی بھی سامنے آ گئی ہے کس طرح ایک سابق وزیر اعظم نے ایک خاص گروپ کو نوازا، اس کے ڈانڈے را سے کیسے ملتے ہیں، یہ امریکی میڈیا نے بتا دیا ہے۔ گوجرانوالہ کے ایک مولوی نے ملک میں آگ لگانے کی کوشش کی ہے تاکہ فرقہ واریت شروع ہو جائے مگر ساری تدبیر الٹی ہو گئی ہے۔ تمام صوبائی اسمبلیوں میں مقدس رسولؐ کی مقدس بیٹی ؓ کی شان بیان کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ بات ن لیگ کے پیر عمران شاہ نے کی، ساہیوال کے مرد حق نے آواز بلند کی تو پوری اسمبلی ہم آواز بن گئی۔ اس آواز کے ساتھ پیر نور الحق قادری، شہر یار آفریدی، علی محمد خان نے اپنی آوازوں کو شامل کیا تو پیپلز پارٹی کی شگفتہ جمعانی جنابِ سیدہؓ کی شان میں قرارداد لے آئیں۔ صدشکر خدائے لم یزل کہ دختر رسولؐ کی شانِ اقدس کی عظمت پر پورا ایوان ایک ہو گیا بلکہ اس وقت کرسیٔ صدارت پر برا جمان ڈاکٹر شیر افگن کے صاحبزادے امجد علی خان نے بھی بھرپور حصہ ڈالا۔ بات قومی اسمبلی میں پہنچنے سے پہلے ہی مسلمان تڑپ رہے تھے۔ عبرتناک سزا کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پیر امین الحسنات، پیر سید منور حسین جماعتی، سید لخت حسین، مفتی گلزار احمد نعیمی، پروفیسر ظہیر قادری اور سید ضیاء النور کے علاوہ بے شمار عاشقانِ اہل بیتؓ میدان میں آ گئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی بتانے لگے کہ ’’ہم نے پیغام پاکستان کے تحت فرقہ واریت کو ختم کیا مگر کچھ لوگ شاید یہ آگ پھر سے لگانا چاہتے ہیں۔‘‘ مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس تر آنکھوں کے ساتھ ملے، آنکھوں میں آنسوئوں کی برسات لئے بولے ’’یہ امت رسول پاکؐ کو کیا شکل دکھائے گی، حرمت ِ اولاد رسولؐ پہ حرف کیسے آ گیا؟‘‘ سنی اتحاد کونسل کے سیدھے سادے جاٹ صاحبزادہ حامد رضا نے تو اسے شان رسالتؐ میں گستاخی قرار دیا کیونکہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’فاطمہؓ میرے جگرکا ٹکڑا ہے۔‘‘
پاکستان میں منافقوں اور غداروں کے کردار دیکھ کر اس عظیم وطن کے قیام میں کردار ادا کرنے والوں کی اولادیں پریشان ہیں۔ خاندانی مراسم کے باعث پیر منور حسین جماعتی نے فون کیا اور پریشانی کا اظہار کیا۔ صرف آپ کی یاددہانی کے لئے بتاتا چلوں کہ قیام پاکستان کے تاریخی اوراق کا جب بھی مطالعہ کیا جائے تو آپ کو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہؒ کا نام قائد اعظمؒ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ملے گا۔ آج کل سیاست میں بعض لوگ اے ٹی ایم کے طور پر مشہور ہیں، قیام پاکستان کی جدوجہد میں سب سے بڑی اے ٹی ایم پیر جماعت علی شاہؒ ہی تھے جو اس دور میں لاکھوں روپے چندہ دیتے تھے۔ ان کے سجادہ نشین پیر منور حسین جماعتی حالیہ واقعات پر ناخوش ہیں، وہ پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، یہاں فرقہ واریت نہیں چاہتے۔
خواتین و حضرات! سیدہ فاطمہ زہراؓ کی شان کیا بیان کروں، میری اوقات ہی کیا ہے، زمین و آسماں ان کی شان بیان کرتے ہیں، ان پر دنیا کے ہر کونے سے درود پڑھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اور فرشتے درود پڑھتے ہیں، جنت ان پر ناز کرتی ہے، ان کے والد حضرت محمد ﷺ محبوب خدا ہیں، نبیوں کے سردار ہیں، تاجدار دوجہاں ہیں، ان کے شوہر خیبر شکن، وجہ تقسیم جنّت و جہنم، وجہ تقسیم مومن و منافق اور بمطابق فرمان رسولؐ ’’جس کا میں مولا ہوں، علیؓ اس کا مولا ہے‘‘ بی بی زہراؓ کے دونوں شہزادے جنت میں جوانوں کے سردار، بی بی زہراؓ کی بیٹی صبر و استقامت کی علامت، بی بی سیدہؓ کے فرزند حضرت حسینؓ نے سر دے کر اسلام کو سر بلند کیا، دین فطرت کو زندہ رکھا۔ ان کی شان بیان سے باہر، ہماری کیا اوقات، ہم تو ان کے قدموں کی خاک پر بھی قربان، بقول صائم چشتی ؎
قرآں میں اُن کی شان پر رحمت کے ہیں حجاب
تطہیر کا بیان ہے پردہ بتولؓ کا